١ - آٹا ٹھہرنا
گوندھنے اور مکی دینے کے بعد آٹے کا تھوڑی دیر رکھا رہنا تاکہ لوچ پیدا ہو جائے۔"جب آٹا ٹھہرنے پر آیا تو لگی مکی دینے، پھٹکیاں پڑ گئیں۔"
( ١٩٠٩ء، نشیب و فراز، ٢٧ )
٢ - آٹا کرنا
ریزہ ریزہ کرنا، باریک سفوف بنانا۔"سب چیز کو کوٹ کر آٹا کر دو۔"
( ١٨٧٩ء، ڈکشنری فیلن، ٣٥ )
٣ - آٹا گوندھنا
آٹے میں پانی ملا کر مکیاں مارنا تاکہ لوچ آ جائے، آٹا ساننا۔"کیا ان کو باولے کتے نہ کاٹا ہے کہ چولھا جھونکیں . اور آٹا گوندھیں۔"
( ١٩٢٤ء، انشاے بشیر، ٢٨٦ )
٤ - آٹا متھنا / مسَلْنا
(جوار، مکئی اور باجرے وغیرہ کے) آٹے کو پانی ملا کر ہتھیلی کی رگڑ سے یکذات اور لوچدار بنانا۔ امیراللغات، ٥٩:١
٥ - آٹا ہونا
آٹا کرنا سے فعل لازم۔"بیلنوں میں خوب پیس لینا چاہیے تاکہ کنکر آٹا ہو جائیں۔"
( ١٩٤٧ء، اشیاے تعمیر، ٣٠ )
٦ - آٹا گیلا ہونا
(ندامت سے) حال پتلا ہونا، پانی پانی ہونا۔ رشک نرمی سے ہوا میدے کا آٹا گیلا رنگ قاقم کا مکدر ہے قمر کا پھیکا
( ١٨٦٤ء، واسوخت رعنا، شعلہ جوالہ، ٤٣٠:٢ )
٧ - آٹا ماٹی (مٹی) ہونا
خراب ہونا، تباہ ہونا۔ (مخزن المحاورات، ١٠)
پس جانا، روندا جانا۔"جو کوئی دشمن ہوں آٹا ماٹی ہوا ہے۔"
( ١٨٢٤ء، انوار سہیلی، ابراہیم بیجاپوری (دکنی اردو کی لغت، ١) )
٨ - آٹے دال کا بھاءو بتانا
کسی غلطی یا خطا پر تنبیہ کرنا، دھمکانا، ڈرانا۔"کیوں بچّا اب آٹے دال کا بھاو بتا دوں، یعنی گھمنڈ کی سزا دے دوں۔"
( ١٨٩١ء، امیراللغات، ٥٩:١ )
٩ - آٹے دال کا بھاو کھلنا / معلوم ہونا / یاد آنا
"دنیا کے نشیب و فراز سے سابقہ پڑنا، غفلت میں یکایک پریشانی سے دوچار ہونا، راحت کے بعد مصیبت میں پھنسنے سے ہوش و حواس اڑ جانا۔"میں ہاتھ کھینچ لوں تو دو دِن میں بابو صاحب کو آٹے دال کا بھاءو معلوم ہو جائے۔"
( ١٩٤٣ء، جنت نگاہ، ١٠٠ )
١٠ - آٹے کے ساتھ گھن پسنا
گناہگار کے ساتھ بے گناہ کا سزا پانا۔ غیروں کے ساتھ مجھ پہ بھی ہونے لگے ستم آٹے کے ساتھ گھن بھی پسا اور دیکھنا
( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، دیوان، ٣٩ )
١ - آٹا نہیں تو دلیا جب بھی ہو جائے گا
تھوڑا بہت فائدہ ہو ہی رہے گا۔ (امیراللغات، ٥٩:١)
٢ - آٹا ہے نہ پاٹا مرغ کا ہے پرکاٹا
"مقدور یا سامان نہیں تھا تو ہنگامہ کیوں برپا کیا۔" (محاورات ہند، سبحان بخش، ٢٤)
٣ - آٹے کا چراغ گھر رکھوں چوہا کھائے باہر دھروں کوّا لے جائے
ہر طرح مشکل ہے، کسی صورت چین نہیں، سراسر نقصان ہی نقصان ہے۔"میری کیا پوچھتے ہو، آٹے کا چراغ گھر رکھوں چوہا کھائے، باہر دھروں کوا لے جائے۔"
( ١٩٤٣ء، دلی کی چند عجیب ہستیاں، ٧٦ )