اکہرا

( اِکَہْرا )
{ اِکَہ + را }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان کا لفظ 'ایک+وار+ک' سے 'اکہرا' بنا۔ اردو میں بطور صفت نیز اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٨١٨ء کو "کلیات انشا" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : اِکَہْرے [اِکَہ + رے]
جمع   : اِکَہرے [اِکَہ + رے]
١ - ایک تہ کا، ایک پرت کا، دوہرا کی ضد۔
"مزے سے اکہرا کرتا ڈانٹے ہوئے بیٹھے ہیں۔"      ( ١٨٩١ء، ایامٰی، ٣٤ )
٢ - تنہا، اکیلا۔
"ایک طرف کو کاٹ اکہرا دلان۔"      ( ١٨٩١ء، ایامٰی، ١٥١ )
٣ - چھوہرا، دبلا (بدن)۔
 قبالے حور کا جو پھول ہے سنہرا ہے کمر ہر اک ہے پتلی بدن اکہرا ہے      ( ١٨١٢ء، شمیم، ریاض شمیم، ١٤:٤ )
٤ - [ بیل بانی ]  وہ بیل جو فطرۃً دبلا پتلا اور کم خور ہو اور زیادہ محنت نہ برداشت کر سکے۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 50:5)
٥ - ایک
"غلطی کریں تو اکہرا ثواب لوٹیں، صحیح حکم دیں تو دہرا ثوب ملے۔"      ( اودھ پنچ لکھنؤ، ٩، ١٠:٢٢ )
٦ - [ مجازا ]  ہلکا، خفیف سا، معمولی (حاجب یا حائل وغیرہ)۔
 اب تو اگلی سی طرح کا نہیں گہرا پردہ رہ گیا آپ میں اور ہم میں اکہرا پردہ      ( ١٨١٨ء، انشا، کلیات، ٢١ )
٧ - دورخ کی بجاے ایک رخ چلنے والا۔
"ایک بارگی ان کا سانس اکہرا ہو گیا۔"      ( ١٨٧٤ء، مجالس النسا، ١١٩ )
٨ - غیر شادی شدہ، کنوارا۔
"مہذب تو پہلے ہی تھے مگر اکہرے اب ڈبل یعنی دہرے ہو کر آئے۔"      ( ١٩٢٠ء، احمق الذین، ٨٦ )