اکیلا

( اَکیلا )
{ اَکے + لا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان کا لفظ 'اک+لا' سے 'اکیلا' بنا۔ اردو میں بطور صفت اسم اور متعلق فعل استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٥٠٠ء کو "معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : اَکیلی [اَکے + لی]
واحد غیر ندائی   : اَکیلے [اَکے + لے]
جمع   : اَکیلے [اَکے + لے]
١ - تنہائی، خلوت۔
"کوئی وکیل بھی . جرح کے سوال گواہ سے اکیلے میں بیٹھ کر کرتا ہے۔"      ( ١٩٢٨ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ١٣، ٣:٣ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : اَکیلی [اَکے + لی]
واحد غیر ندائی   : اَکیلے [اَک + لے]
جمع   : اَکیلے [اَکے + لے]
١ - تنہا، جس کے ساتھ دوسرا نہ ہو، واحد، ایک۔
"اکیلا ہی . اس پرانے خاندان کی یادگار ہے۔"      ( ١٩٢٦ء، شرر، مضامین، ١١٣:٣ )
٢ - وہ مقام جہاں کوئی دوسرا نہ ہو، سنسان اور خالی مکان یا جگہ۔
 اکیلا گھر شب فرقت میں ویرانے سے بدتر ہے مہیب آتی ہیں آوازیں درو دیوار و ایواں سے      ( ١٨٩١ء، اشک، معیار نظم، ٢٦٦ )
٣ - یکتا، لاثانی، فرد، بے مثل، لاجواب۔
 جان کیا چیز ہے ایمان پہ کھیلا ہے تو پسر سعد کے چیلوں میں اکیلا ہے تو      ( ١٩٣١ء، محب، مراثی، ١٢٩ )
متعلق فعل
١ - بلاشرکت غیرے، صرف، فقط، محض۔
"عورت کو اس کی طبیعت پر اکیلا چھوڑ دے کہ گھنٹے آدھ گھنٹے میں وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال لے۔"      ( ١٩٢٤ء، عصائے پیری، ١٧٠ )