دھڑکن

( دَھڑْکَن )
{ دَھڑ + کَن }
( پراکرت )

تفصیلات


دڈھک  دَھڑْکَن

پراکرت الاصل لفظ 'دڈھک' سے ماخوذ مصدر 'دھڑکنا' سے حاصل مصدر 'دھڑکن' اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٨٩١ء کو "ایامٰی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : دَھڑکَنیں [دَھڑ + کَنیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : دَھڑْکَنوں [دَھڑ + کَنوں (و مجہول)]
١ - (دل کی) حرکت یا حرکت کرنے کی آواز۔
"١٩٣٨ء کے عبد بھی چند نام ایسے ضرور نظر آتے ہیں جن کا تعلق اپنے معاشرے سے دل اور اس کی دھڑکن جیسا رہا ہے۔"      ( ١٩٧٠ء، برشِ قلم، ٩٩ )
٢ - بے قراری، بے چینی، اضطراب۔
"اس کے دل میں دھرکن بھی ہے کہ کہیں یہ روداد سچ نکلی ہے تو وہ کیسے رام دلاری کو منہ دکھائے گی۔"      ( ١٩٣٥ء، دودھ کی قیمت، ١٤٢ )
٣ - اختلاجِ قلب، ہولِ دل، خفقان۔
"مجھ کرموں بندی کو دھڑکن کا مرض، پہلے ہی کی خفاقانی دیوانی۔"      ( ١٩٢٨ء، پسِ پردہ، ٣٩ )