سیمابی

( سِیمابی )
{ سِی + ما + بی }
( فارسی )

تفصیلات


سِیماب  سِیمابی

فارسی سے اردو میں دخیل اسم 'سیماب' کے ساتھ فارسی قاعدے کے تحت 'ی' بطور لاحقہ نسبت بڑھانے سے 'سیمابی' بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے ١٨٤٥ء کو "مجمع الفنون" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت نسبتی
١ - پارے کے رنگ کا، پارے جیسا؛ (کنایۃً) بے قرار، مضطرب۔
 مزرع ادب کو ہے، آرزوئے سیرابی نقش آپ کا لیکن، ہے تو وہ بھی سیمابی      ( ١٩٣١ء، بہارستان، ٦٣٤ )
٢ - کبوتر کے ایک رنگ کا نام کاسنی یا سرمئی رنگ سے ملتا ہوا ہوتا ہے۔
"رنگ کبوتروں کے یہ ہیں . سیمابی . پیازی یا بو وغیرہ۔"      ( ١٨٧٢ء، رسالہ سالوتر، ٥١:٢ )
٣ - مرہم کی ایک قسم جس میں پارہ جزو اعظم ہوتا ہے۔
"برطانوی قرابا دین میں انیس مرہم ہیں ان کو دو جماعتوں میں تقسیم کیا جاتا ہے (١) عموم (٢) سیمابی۔"      ( ١٩٤٨ء، علم الادویہ، ٧٨:١ )
٤ - الماس کی ایک قسم جس میں چاندی کی جھلک ہوتی ہے اور رنگ پارے کی طرح ہوتا ہے۔
"فارسی کے حکماء اس کی پانچ قسمیں بتاتے ہیں، سیمابی: جس میں پارے جیسی چمک دمک ہو۔"      ( ١٩٨٢ء، قیمتی پتھر اور آپ، ١٤ )