اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - پیشوائ، (کسی مہمان وغیرہ کو) بڑھ کر خوش آمدید کہنا۔
دامن پکڑ کر میں تمھیں فردوس میں لے جاؤں گی حوروں کو لے کر ساتھ استقبال کرنے آؤں گی
( ١٩٢٤ء، انشائے بشیر، ١٤٦ )
٢ - آگے بڑھنا، قدم بڑھانا۔
'اب جنگ ابوالہراس اور اس کے استقبال کا ذکر کیا جاتا ہے۔"
( ١٨٩١ء، بوستان خیال، ٥٣٤:٨ )
٣ - قریب آنے دینا؛ قریب پہنچنا، نزدیکی حاصل کرنا۔
'سنت یہ ہے کہ استقبال کرے ہر طہر کا تو طلاق دے نزدیک ہر طہر کے۔"
( ١٨٦٧ء، نورالہدایہ (ترجمہ)، ٤١:٢ )
٤ - مقابل یا آمنے سامنے ہونا؛ (کسی طرف) رخ کرنا، منہ کرنا۔
'نماز کی جگہ ستھری صاف ہو، استقبال کعبہ، اوقات نماز میں نماز پڑھنا۔"
( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض )
٥ - [ صرف ] زمانۂ آیندہ، زمانۂ مستقبل۔
جو آج رنگ ہے ماضی میں بھی یہی تھا حال وہی ہے فاعل ماضی و حال و استقبال
( ١٩١٢ء، شمیم، ریاض شمیم، ١:٥ )
٦ - وہ کلمہ جو فعل مستقبل کے لیے مصدر سے بنایا جائے۔
'حال اور استقبال اور اسم فاعل - مشتق ہوتے ہیں۔"
( ١٨٥٥ء، تعلیم الصبیان، ٤٥ )
٧ - [ ہیئت ] چاند اور سورج کا ایک دوسرے کے مقابل ہونا۔
'ایسا نہ تو چاند کے زمانۂ استقبالات میں ممکن ہے، نہ اس سے پہلے یا بعد۔"
( ١٩٦٩ء، مقالات ابن الہیشم، ٤٠ )