بھڑنا

( بِھڑْنا )
{ بِھڑْ + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


ابھیرٹ  بِھڑْنا

سنسکرت زبان کے اسم 'ابھیرٹ' سے ماخوذ مصدر ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور فعل لازم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٥٧ء کو "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - بھڑانا، بھیڑنا کا لازم، (دروازے کھڑکی کواڑ کا) بند ہونا۔
"کواڑ کے پٹ بھڑے دیکھ کرجانا کہ کوئی غیر مرد اس کے گھر میں ہے۔"      ( ١٨٠٣ء، اخلاق ہندی، ١١٨ )
٢ - (ایک جسم کا دوسرے سے) مس ہونا، بغلگیر ہونا، قریب ہونا، متصل ہونا۔
 بھڑکے در سے بجائی وہ سیٹی وہ فقط گھر کے صحن میں گونجی      ( ١٩٢٠ء، جگ بیتی، ٢٦ )
٣ - ٹکرانا، گتھ جانا، متصادم ہونا، (فوج وغیرہ کا)، مقابل ہونا، لڑائی پر آمادہ ہونا، لڑنا۔
"تم میں سے جو لوگ اس دن جب دونوں فوجیں بھڑیں پیچھے ہٹے، ان کے بعض کاموں کی وجہ سے شیطان نے ان کو پھسلا دیا۔"      ( ١٩٣٢ء، سیرۃ النبیۖ، ٧٤٧:٤ )
٤ - ملاقات کرنا، صحبت رکھنا، تعلق رکھنا، ملنا جلنا۔
 تم پہ جو کچھ ہوا سزا تھی رند کیوں بھڑے ایسے بے مروت سے      ( ١٨٣٢ء، دیوان رند، ١٢٩:١ )
٥ - بحث کرنا، تبادلۂ خیال رکھنا۔
"نہ ان سے کوئی مخاطب ہوتا تھا نہ یہ کسی سے بھڑنے کی جرأ کرتے تھے۔"      ( ١٩١٢ء، معرکۂ چکسبت و شرر، ٣٤٦ )