ٹکرانا

( ٹَکْرانا )
{ ٹَک + را + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


ستکرای  ٹکر  ٹَکْرانا

سنسکرت کے اصل لفظ 'ستکرای' سے ماخوذ اردو زبان میں 'ٹکر' مستعمل ہے اس کے ساتھ اردو قواعد کے مطابق الف کا اضافہ کرکے اردو لاحقۂ مصدر 'نا' لگانے سے 'ٹکرانا' بنا اردو میں بطور مصدر مستعمل ہے ١٨٥٣ء میں "دیوانِ برق" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - ٹکرلگنا، لڑ جانا، بھڑجانا، متصادم ہونا۔
"سب وحشت کھائے ادھر ادھر بھاگنے لگے دروازوں سے ٹکرا ٹکرا کے رہ گئے"      ( ١٩١٩ء، جو یائے حق، ٢٤٤:٢ )
٢ - کسی چیز سے سرمارنا، ٹکر لگانا۔
"موٹے سانڈوں کھاؤ اور پھر ہمیں ہی ٹکرانا"      ( ١٩٢٨ء، پس پردہ، ١٣٥ )
٣ - مقابلہ کرنا، ٹکرلینا، متصادم ہونا۔
 حیا ہے مانع جرات مگر اے نازنیں کب تک مرے اصرار سے ٹکرائے گی تیری نہیں کب تک      ( ١٩١٠ء ترانۂ وحشت، ٤٤ )
٤ - برابری کرنا، ہم سری کرنا، مقابلہ کرنا۔
"ان کی غزل سے مرزا کی غزل کو، قصیدے سے قصیدے کو اور اسی طرح ہر صنف سے اسی صنف کو ٹکرایا جاتا"      ( ١٨٩٧ء، یادگار غالب، ٥ )
٥ - قریب ہونا، متصل ہونا۔
"کوئی مضمون ہو کوئی خیال ہو وہ یا تو ڈرامے کے متعلق ہو گا یا اس سے ٹکرا کے نکلے گا"      ( ١٩٤٧ء، ادبی تبصرے، ٥١ )
٦ - اتفاقاً مڈ بھیڑ ہو جانا، آمنا سامنا ہو جانا۔
"دو تین دنوں کے لیے کراچی آئے تھے مجھ سے بھی ٹکرا گئے"      ( ١٩٧١ء، ہمارے عہد کا ادب اور ادیب، ١٠٨ )
  • to knock (a body) against (another)
  • to bring into collision;  to knock together the heads of two people;  to butt;  to dash together;  to dash against;  to knock (against) to go along stumbling
  • to grope in a dark place or passage