فیشن

( فَیشن )
{ فَے (ی لین) + شَن }
( انگریزی )

تفصیلات


Fasion  فَیشن

عربی زبان میں دخیل کلمہ ہے جو اردو میں اپنے اصل مفہوم کے ساتھ عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٨٨٩ء کو "سیر کہسار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - وضع، طرز، طور طریقہ۔
"میں جو اپنے ملک کے قدیمی آئین و قوانین کا پابند ہوں تو مجھے یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ پرانے فیش (وضع) کا آدمی ہوں۔"      ( ١٩٠٧ء، کرزن نامہ، ٣٠٠ )
٢ - بناوٹ، تراش خراش، نمونہ۔
"اپنا فرض ادا کر دینے کے بعد انہوں نے راہ سے ہٹ کر زیادہ مضبوط اور نئے فیشن کی گاڑیوں کو جگہ دے دی۔"      ( ١٩٧٠ء، قافلہ شہیدوں کا (ترجمہ)، ١٢٩:١ )
٣ - سج دھج، آن بان، خوش وضعی۔
"ہمارے فیشن کے عاشق فُل بُوٹ کا انتخاب کرنیگے یہ کیوں اس لیے کہ انگریزوں کا پہناوا ہے۔"      ( ١٩٤٧ء، مضامین فرحت، ٥٦:١ )
٤ - (لباس کا) مروجہ انداز، جدید وضع۔
"کومیلا کا آج کا فیشن بھی آنکھوں میں کھپا جاتا تھا خوبصورت کنارہ دار ساڑھی غضب ڈھا رہی تھی۔"      ( ١٩٣٠ء، مس عنبریں، ٧٨ )
٥ - دستور، رواج۔
"فارسی میں لکھتا پڑھنا عام فیشن تھا۔"      ( ١٩٥١ء، خطباتِ محمود، ٩٦ )
٦ - انداز، اسلوب۔
"اگر وہ سو برس بعد پیدا ہوتے تو ہماری زبان کا فیشن نہایت خوبصورتی سے بدلتے۔"      ( ١٨٨٠ء، آب حیات، ٢٨١ )
٧ - وہ شے یا کام جو عام طور پر مقبول عام رواج۔
"فارسی تہذیب و شائستگی کی علامت سمجھی جانے لگی تھی اور جیسا کہ دستور ہے فیشن میں داخل ہو گئی۔"      ( ١٩٣٣ء، خطباتِ عبدالحق، ٥ )
٨ - وہ کام جو مروجہ رسم کے طور پر کیا جائے۔
"ادب اور مذہب اُنکے ہاں صرف فیشن ہو کر رہ گئے ہیں۔"      ( ١٩٧٣ء، ناصر کاظمی، خشک چشمے کے کنارے، ٤٣ )