چلن

( چَلَن )
{ چَلَن }
( سنسکرت )

تفصیلات


چلنا  چَلَن

اردو زبان کے لفظ 'چلنا' مصدر سے حاصل مصدر 'چلن' بنا اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٤٢١ء کو "بندہ نواز، شکارنامہ" (رسالہ شہباز)" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : چَلَنوں [چَلَنوں (و مجہول)]
١ - چلنے کی کیفیت یا حالت، حرکت، گردش۔     
 مگر برہمن لوگ کا ہے سخن کہ چوتھے کا منحوس ہے سب چلن     رجوع کریں:   ( ١٩٠٢ء، سیرالافلاک، ٥٤ )
٢ - چال، رفتار۔
 رک رک کے کس غرور سے چلتا ہے حلق پر خنجر کا بھی تمھاری طرح ہے چلن خراب      ( ١٩٠٣ء، سفینۂ نوح، ٣٦ )
٣ - رواج، دستور، رسم۔
"جب سے میں بندوق چلانے کے قابل ہوا، اس وقت سے شیر کو کارتوسی بندوق سے مارنے کا چلن ہو گیا۔"      ( ١٩٤٠ء، مضامین رموزی، ٥٣ )
٤ - (سکے کا) رواج، (سکے کے ذریعہ) لین دین۔
"اشرفی اور روپے کا چلن ہندوستان میں صدیوں سے تھا۔"      ( ١٩٣١ء، سکہ اور شرح تبادلہ، ٣ )
٥ - رویہ، طور، طریق، وضع، روش، انداز، ڈھنگ۔
 ہے چوٹ کھا کے بھی جی کا وہی چلن اب تک گیا نہیں مرے بانکے کا بانکپن اب تک      ( ١٩٣٨ء، سریلی بانسری، ٥٨ )
٦ - کفایت شعاری، جزرسی، چلن کا آدمی۔ (فرہنگ آصفیہ؛ نوراللغات)
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : چَلَنوں [چَلَنوں (و مجہول)]
١ - چلنے کو تیار، کوچ کرنے والا؛ مرنے کے قریب۔
"اب یہ چلن ہیں جو کچھ بنے ان سے پن کراؤ۔"      ( ١٨٦٨ء، رسوم ہند، ١١٨ )
٢ - ہلتا ہوا، لرزاں، متزلزل، غیر مستقل۔ (پلیٹس)