بھرمار

( بَھرْمار )
{ بَھر + مار }

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ صفت 'بھر' کے ساتھ اردو مصدر 'مارنا' کا صیغۂ امر بطور لاحقہ فاعلی لگانے سے 'بھرمار' بنا۔ اردو میں بطور عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٦٥ء کو "علی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - کثرت، افراط، بہتات، ریل پیل۔
 مجھے تم دیکھتے ہی گالیوں پر کیوں اتر آئے بھرے بیٹھے تھے کیا محفل میں یہ بھرمار کیسی ہے      ( ١٩٠٥ء، یادگار داغ، ٨٨ )
٢ - ایک قسم کا بندوق۔
"دو نامی یا ایک بڑے بور کی بھر مار بٹانوں (گراپ) یا صرف اچھی مقدار باردو سے بھری ہوئی کافی ہے۔"      ( ١٩٣٢ء، قطب یار جنگ، شکار، ٢٥٨:٢ )