اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - باپ کا باپ۔
"دادا . بغیر اس افشاں کے نوالہ نہیں توڑتے تھے۔"
( ١٩٥٢ء، افشاں، ٣٦٣ )
٢ - جدِّ امجد، مورثِ اعلٰی۔
ملک موروث کا رہ رہ کے خیال آتا ہے چھوڑ کے بیٹھ رہا خلد کو دادا کیسا
( ١٨٨٩ء، دیوانِ عنایت وسفلی، ١٦ )
٣ - [ تعاظیما ] بڑی عمر والا آدمی، بڑے صاحب یا بڑے میاں کی جگہ۔ (فرہنگِ آصفیہ)۔
٤ - جس شخص نے پالا اور پرورش کیا ہو وہ بھی بعض جگہ دادا کہلاتا ہے۔
"جب رات ہوئی تو وزیر زادی نے دادا کو بلایا۔"
( ١٨٠٢ء، باغ و بہار، ١٢١ )
٥ - بوڑھی کنیز۔ (فرہنگِ عامرہ)۔
٦ - [ ہندو ] باپ کی جگہ دادا کہتے ہیں۔
"سویرا ہوتے ہی اپنے باپ کے پاس جا کر بوے دادا اب میرا نبا اس گھر میں نہ ہو گا۔"
( ١٩٣٦ء، پریم چند، پریم پچیسی، ٦٧:١ )
٧ - [ ہندو ] بڑا بھائی۔
"ہیرا نے اسے سر سے پیر تک دیکھ کر کہا تم بھی تو بہت دبلے ہو گئے ہو، دادا۔"
( ١٩٣٥ء، گؤدان، ٥٩٢ )
٨ - [ ہندو ] برہمن کے لیے کلمہ خطاب۔ (عموماً جاٹوں، حجام، میراثی اور گوجروں میں مستعمل)۔
"راجہ بولا: دادا پاؤں چھوٹا ہوں۔"
( ١٩٦٢ء، حکایاتِ پنجاب (ترجمہ)، ٣٢٠:١ )
٩ - گُرو، استاد۔
سلوچنا نے قطع کلام کر کے کہاں وہ سنانے کی چیز نہیں ہے دادا جی!۔"
( ١٩٣٦ء، پریم چند، پریم چالیسی، ١٦٥:٢ )
١٠ - بدمعاشوں اور غنڈوں کا سردار۔
"استحصال کے خلاف . دادا حضرت اور ان کے چیلے ہی دوسری تہذیبوں اور تقاضوں کو پسماندہ رکھنے اور دبانے کا عمل کرتے ہیں۔"
( ١٩٧٥ء، پاکستان ادب، کراچی، مئی، ٧ )