دادا

( دادا )
{ دا + دا }
( سنسکرت )

تفصیلات


تات+کہ  دادا

سنسکرت الاصل دو الفاظ 'تات+کہ' سے ماخوذ 'دادا' اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "پرت نامہ" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : دادی [دا + دی]
واحد غیر ندائی   : دادے [دا + دے]
جمع   : دادے [دا + دے]
جمع غیر ندائی   : دادوں [دا + دوں (و مجہول)]
١ - باپ کا باپ۔
"دادا . بغیر اس افشاں کے نوالہ نہیں توڑتے تھے۔"      ( ١٩٥٢ء، افشاں، ٣٦٣ )
٢ - جدِّ امجد، مورثِ اعلٰی۔
 ملک موروث کا رہ رہ کے خیال آتا ہے چھوڑ کے بیٹھ رہا خلد کو دادا کیسا      ( ١٨٨٩ء، دیوانِ عنایت وسفلی، ١٦ )
٣ - [ تعاظیما ]  بڑی عمر والا آدمی، بڑے صاحب یا بڑے میاں کی جگہ۔ (فرہنگِ آصفیہ)۔
٤ - جس شخص نے پالا اور پرورش کیا ہو وہ بھی بعض جگہ دادا کہلاتا ہے۔
"جب رات ہوئی تو وزیر زادی نے دادا کو بلایا۔"      ( ١٨٠٢ء، باغ و بہار، ١٢١ )
٥ - بوڑھی کنیز۔ (فرہنگِ عامرہ)۔
٦ - [ ہندو ]  باپ کی جگہ دادا کہتے ہیں۔
"سویرا ہوتے ہی اپنے باپ کے پاس جا کر بوے دادا اب میرا نبا اس گھر میں نہ ہو گا۔"      ( ١٩٣٦ء، پریم چند، پریم پچیسی، ٦٧:١ )
٧ - [ ہندو ]  بڑا بھائی۔
"ہیرا نے اسے سر سے پیر تک دیکھ کر کہا تم بھی تو بہت دبلے ہو گئے ہو، دادا۔"      ( ١٩٣٥ء، گؤدان، ٥٩٢ )
٨ - [ ہندو ]  برہمن کے لیے کلمہ خطاب۔ (عموماً جاٹوں، حجام، میراثی اور گوجروں میں مستعمل)۔
"راجہ بولا: دادا پاؤں چھوٹا ہوں۔"      ( ١٩٦٢ء، حکایاتِ پنجاب (ترجمہ)، ٣٢٠:١ )
٩ - گُرو، استاد۔
سلوچنا نے قطع کلام کر کے کہاں وہ سنانے کی چیز نہیں ہے دادا جی!۔"      ( ١٩٣٦ء، پریم چند، پریم چالیسی، ١٦٥:٢ )
١٠ - بدمعاشوں اور غنڈوں کا سردار۔
"استحصال کے خلاف . دادا حضرت اور ان کے چیلے ہی دوسری تہذیبوں اور تقاضوں کو پسماندہ رکھنے اور دبانے کا عمل کرتے ہیں۔"      ( ١٩٧٥ء، پاکستان ادب، کراچی، مئی، ٧ )
  • بَزُرْگ
  • a paternal grand father