چکلا

( چَکْلا )
{ چَک + لا }
( سنسکرت )

تفصیلات


چکر+ل+کہ  چَکْلا

سنسکرت کے اصل لفظ 'چکر+ل+کہ' سے ماخوذ 'چکلا' اردو میں بطور صفت اور گاہے بطور اسم بھی استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٧٠ء کو "الماس درخشاں" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
واحد غیر ندائی   : چَکْلے [چَک + لے]
جمع   : چَکْلے [چَک + لے]
جمع غیر ندائی   : چَکْلوں [چَک + لوں (و مجہول)]
١ - چوڑا، پھیلا ہوا (طول و عرض میں)۔
"ایک بڑا اونچا اور بڑا چوڑا چکلا اور بہت ہی بدشکل پلنگ بچھا ہوا ہے۔"      ( ١٩٦٢ء، کائنات بیتی، ٢٧ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : چَکْلے [چَک + لے]
جمع   : چَکْلے [چَک + لے]
جمع غیر ندائی   : چَکْلوں [چَک + لوں (و مجہول)]
١ - مدور، گول، گھیرا، دائرہ نما، برتن پتھر یا لکڑی کا دائرہ نما ٹکڑا، چکی کایاٹ۔
"طوق میں . کوئی میخ وغیرہ ایسی جو ذقن میں جاکر اڑے جاوے اور یا طوق کا چکلا ایسا ہو اس کی کگر ذقن میں اڑ جاوے۔"      ( ١٩٧٦ء، معارف القرآن، ٢٦١:٧ )
٢ - صوبے کا ایک چھوٹا حصہ، تعلقہ، تحصیل، ضلع۔
"یہ اودھ کی حکومت کا ایک چکلہ (ضلع) بنا گیا۔"      ( ١٩٤٣ء، حیات شبلی، ٥٤ )
٣ - بازاری عورتوں کا اڈا، کسبی خانہ، عصمت فروشی کا اڈا۔
"کہاں سے کھائیں گے، کیا اب چکلے میں دلالی کریں گے۔"      ( ١٩١٠ء، خواب ہستی، ١١٢ )
٤ - [ مؤنث ]  جوتی، چرن، چپل۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 219:2)