کنول

( کَنْوَل )
{ کَن (نون غنہ) + وَل }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - دریائی پودے کا پھول جو سطح آب پر کھلتا ہے، (شعرا کنول کے غنچے کو دل سے تشبیہہ دیتے ہیں۔
"خوشبودار پھول جن سے عطر کشید کیے جاسکتے جیسے گلاب، کنول (نیلوفر) وغیرہ، پھول جن کا عطر کشید نہیں کیا جاتا، جیسے نرگس، بنفشہ، وغیرہ۔"      ( ١٩٧٢ء، مسلمان اور سائنس کی تحقیق، ٢٨٢ )
٢ - فانوس کی ایک قسم، کنھول یا کھلے ہوئے پھول سے مشابہ ایک فانوس جس میں موم بتی یا بلب لگا کر روشن کرتے ہیں۔
 اک گوشے میں ہے فانوس تو ایک سمت کنول قصرِ ارمان و تمنا کا تو اب ذکر ہی کیا      ( ١٩٧٨ء، دامن یوسف، ١٥٩:١ )
٣ - کنول سے مشابہ کاغذ یا ابرک سے بنا ہوا چراغدان جس میں موم بتی لگا کر روشن کرتے ہیں۔
"ابرک کے کنول سہاگ پڑے کے آگے روشن چوکی بجتی ہوئی پیچھے پیچھے۔"    ( ١٩٠٥ء، رسوم دہلی، سید احمد دہلوی، ٦٨ )
٤ - ایک رسم جس میں بھادوں کے مہینے میں رنگین کاغذ یا ابرک کے پھول جن میں موم بتی روشن وہتی ہے خواجہ خضر کے نام پر پانی میں بہاتے ہیں، خواجہ خضر کا بیڑا۔ (نوراللغات، فرہنگ آصفیہ)
٥ - [ نگینہ گری ]  مخروطی وضع کا پہل دار بنایا ہوا نگینہ۔
 مشتری دیکھ یہ ناہیں ہیں کہ ہے کاہکشاں جوہری دیکھ یہ جوہر ہیں کہ ہیرے کے کنول      ( ١٩١٦ء، نظم طباطبائی، ٣٥ )
٦ - ایک بوٹی کا نام۔
"زمین قند، چم کورہ، کنول، مان کندہ وغیرہ، ان نشاستہ دار گڈوں میں سے اکثر میں زہر ہوتا ہے۔"      ( ١٩٠٧ء، مصرف جنگلات، ٣٢١ )