میسر

( مُیَسَّر )
{ مُیَس + سَر }
( عربی )

تفصیلات


یسر  مُیَسَّر

عربی زبان میں ثلاثی مزید کے باب کے تحت مُفَعَّل کے وزن پر مشتق کیا گیا اسمِ معقول ہے جو اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٦٤٩ء کو 'خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت
١ - (لفظاً) آسان کیا گیا؛ وہ (شے) جو آسانی سے ہاتھ لگ جائے، چیز جو آسانی سے مل سکے، (مجازاً) حاصل، دستیاب (عموماً ہونا کے ساتھ مستعمل)
 کیا دل میں انہوں نے گھر ہے اب یہ گھر اثاث میّسر ہے مجھے ہر شے سے بالا ثر اثاث      ( ١٩٩٠ء، زرمرمئہ درود، ٨٨ )
٢ - ممکن، ممکن الحصول
"یہ دونوں منصوبے کثیر المقاصد منصوبے ہیں اور انکی تکمیل سے آبپاشی کےلئے پانی بھی کافی میسر آ جائے گا۔"      ( ١٩٤٩ء، پاکستان کے لئے ایندھن کے وسائل، ٨٧ )
٣ - حاضر، موجود
'یہ نام کا کیمپ ہے لیکن کیمپ کی کوئی سہولت یہاں میسر نہیں۔"      ( ١٩٨٨ء، آزادی کے سائے میں، ٨٥ )
٤ - تیار، آمادہ (پلیٹس)