اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - شِدّت سے موجوں کا اٹھنا اور آپس میں ٹکرانا، پانی کے تھپیڑے، طوفان۔
"اس کا بھی تذکرہ کیا کہ تلاطم کی حالت میں ایک جہاز کو دوسرے جہاز کے لنگروں سے کس طرح علیحدہ رکھتے ہیں۔"١٩٠٧ء، نپولینِ اعظم، ٤٥:٣
٢ - [ مجازا ] ہلچل، ہنگامہ۔
"غرض محلّات معلّٰی میں تلاطم ہے کوئی عُذر سنا نہیں جاتا۔"
( ١٩٠٦ء، رسالہ مخزن، جون، ٤٣ )
٣ - فوجوں کی صفوں میں ابتری۔
"یہ ہیبت یہ وقار یہ دبدبہ یہ رعب تیغ و سنان کی چمک، فوج و عسکر کے تلاطم. سپاہیوں کے نمائش سے نہیں پیدا ہوا۔"
( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبیۖ، ٧٧٣:٣ )
٤ - جوش و خروش، ولورلہ، اُمنگ، ترنگ۔،
تموّج تجھ میں پیدا یا طلاطم تجھ میں برپا ہو سکوں کا یا خموشی کا ہو تو پہنے ہوئے زیور
( ١٩٠١ء، جنگل میں منگل، ٢٥١ )
٥ - بے چینی، پریشانی، مصیبت زدگی۔
گو مصیبت میں تلاطم میں تباہی میں رہے سرکٹے پاؤں مگر راہِ الٰہی میں رہے
( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٤١٧:١ )
٦ - نغمات کا زیرو بم، آواز کا ٹکراؤ۔
گردوں پہ سپیدی و سیاہی کا تصادم طوفان وہ جلووں کا وہ نغموں کا تلاطم
( ١٩٢٠ء، روحِ ادب، ٢٤ )