طغیانی

( طُغْیانی )
{ طُغ + یا + نی }
( عربی )

تفصیلات


طغا  طُغْیان  طُغْیانی

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم 'طغیان' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے 'طغیانی' بنا۔ اردو میں بطور اسم اور گا ہے بطور صفت مستعمل ہے۔ ١٨٣٧ء کو "چمنستان سخن" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - پرزور، جوش سے بھرا ہوا، طاقت ور۔
"بصیرت . خود ایک طغیانی تجربہ ہوتی ہے۔"      ( ١٩٦٦ء، شاعری اور تخیل، ١٢٦ )
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : طُغْیانِیاں [طُغ + یا + نِیاں]
جمع غیر ندائی   : طُغْیانِیوں [طُغ + یا + نِیوں (و مجہول)]
١ - سیلاب، دریا کا چڑھاؤ۔
 ساحلوں پر رہنے والے فکر مستقبل کریں ابر بھی گہرا ہے دریا میں بھی طغیانی سی ہے    ( ١٩٨٤ء، چاند پر بادل، ٦٣ )
٢ - زور، زیادتی، شدت (ہوا، موسم وغیرہ کی)۔
 یہ سناٹوں کی طغیانی رہے گی بھرے شہروں میں ویرانی رہے گی    ( ١٩٤٩ء، نبضِ دوراں، ٧٥ )
٣ - سرکشی، چڑھائی۔
"ملوکِ چین کو اون کی باگ ڈھیلی کر دینی بسبب ان کی طغیانی کے بری معلوم ہوئی تھی۔"      ( ١٨٤٧ء، تاریخ ابوالفدا (ترجمہ)، ٤٥٦:٢ )