بھرنا

( بَھرْنا )
{ بَھر + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


بھرنیپن  بَھرْنا

سنسکرت زبان کے مصدر 'بھرنی ین' سے ماخوذ مصدر ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور فعل متعدی اور فعل لازم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٨٢ء کو "رضوان شاہ و روح افزا" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - آلودہ ہونا، لتھڑنا۔
 مارا ہے کس کو ظالم اس بے سلیقگی سے دامن تمام تیرا لو ہو میں پھر رہا ہے      ( ١٨١٠ء، کلیات میر، ٣١٠ )
٢ - رقت طاری ہونا، بھر آنا، رواں ہونا۔
 مل کے جب سب سے چلا شاہ کا وہ شیدائی اور دل سب کے بھرے غم کی اداسی چھائی      ( ١٩٠٠ء، مراثی رشید، ٨٦ )
٣ - [ آسامی کا۔ ]  خالی نہ رہنا۔
"تم نے درخواست دینے میں بہت دیر کی اب سب جگہیں بھر گئی ہیں۔"      ( ١٩٦٢ء، مہذب اللغات، ٣٨٥:٢ )
٤ - کمال کو پہنچنا، بھرپور ہونا۔
 کھل گئے بند قبا نشوونماے حسن سے بھر چکی ہو جب جوانی پھر حیا کیا چیز ہے      ( ١٩٣٥ء، دیوانِ عیان، ١٥٩ )
٥ - (کھسرا یا چیچک وغیرہ) کا اچھی طرح ابھر آنا یا نمایاں ہونا۔ (ماخوذ : فرہنگ آصفیہ، 436:1، نوراللغات، 725:1)
٦ - آباد ہونا، بارونق ہونا۔
 ساقی نہ ہو جب تک فزایندۂ رونق اے بادہ کشاں، مجلس عشرت نہیں بھرتی      ( ١٨١٨ء، انشا، کلام، ٢٢٧ )
٧ - [ زخم کا ]  مندمل ہونا، انگور بندھنا۔
 دوست غمخواری میں میری، سعی فرماوینگے کیا زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھجاوینگے کیا      ( ١٨٦٩ء، دیوان غالب، ١٥٥ )
٨ - جمع ہونا، یکجا ہونا۔
"سینکڑوں بیویاں بھری تھیں کس کس کا منہ کیلتی۔"      ( ١٨٩٥ء، حیات صالحہ، ١٥٩ )
٩ - (سے، کے ساتھ) نباہ کرنا، بدمزاج کے ساتھ بسر کرنا۔
 پاک ہو شہر جو کہیں یہ میرے کب تک ایسے نحس سے کوئی بھرے      ( ١٨١٠ء، کلیات میر، ١٣٦٨ )
١٠ - سیر ہونا، آسودہ ہونا۔
 نظر میں پڑ یا جا تلگ تھا ہریا تماشے سوں کس کا نظر نیں بھریا      ( ١٦٨٢ء، رضوان شاہ و روح افزا، ١٦ )
١١ - چوپایے کا گابھن ہونا۔ (ماخوذ فرہنگ آصفیہ، 436:1)
١٢ - پانی کھیت میں پہنچا دینا۔ (جامع اللغات، 543:1)
١٣ - بھگتنا
"کرے کوئی بھرے کوئی۔"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ٥٧٥:١ )
١٤ - آنا، سمانا، جچنا۔
 گرچہ لاکھوں ہی دل اپنے کو فدا کرتے ہیں اس کی آنکھوں میں و لیکن کوئی بھرتا ہی نہیں      ( ١٩٢٣ء، دیوان شاداں، ٥٩ )
١٥ - شل ہونا، تھک جانا۔
"کام کرتے کرتے ہاتھ بھر گیا۔"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ٧٢٥:١ )
١٦ - لپیٹنا
"نلیوں میں سوت بھرنا یا گوٹا بننے کے کانٹے میں بانا بھرنا۔"      ( ١٨٨٨ء، فرہنگ آصفیہ، ٤٣٦:١ )
١٧ - نذر چڑھانا، منت ادا کرنا۔
 جاجا کے مسجدوں میں بھرے طاق بھی بہت اس بت کی بارگہ میں نہ پہونچا کسی طرح    ( ١٨٧٨ء، بحر و نوراللغات، ٤٤٩:٣ )
١٨ - [ عملیات ] چلّے وغیرہ کی مدت پوری کرنا۔
 جیسے میں رماتا ہوں ترے عشق میں دھونی چلّا بھی تو اس طرح سے عامل نہیں بھرتا    ( ١٨٩٦ء، دیوان شرف، ٤٧ )
١٩ - پورا پورا وصول کرنا، بھرپور لینا۔
"روپیہ تو میں ہر صورت میں تجھ سے بھر ہی لوں گا۔"      ( ١٨٧١ء، مبادی الحکمہ، ١٢٧ )
٢٠ - (غم و غصے سے) بھرا ہوا ہونا، روہانسا ہونا۔
 میں بھر رہا ہوں آپ مجھے بس نہ چھیڑیے ایسا نہ ہو کہ خاطر معجزوں ٹپک پڑے      ( ١٨١٨ء، کلام انشا، ٢٤٩ )
٢١ - پر ہونا، معمور ہونا، لبریز ہونا۔
"مذہب نے ان کو بھی سرگرم جذبات سے بھر دیا۔"      ( ١٩١٤ء، مقالات شبلی، ٨٣:٣ )
٢٢ - کسی بد احتیاطی اور بد سلیقگی کے ساتھ کوئی چیز استعمال کرنا۔ (مہذب اللغات، 385:2)
٢٣ - کھسیانا ہونا (نوراللغات، 725:1)
٢٤ - گھوڑے کا جکڑ بند ہونا۔ (فرہنگ آصفیہ، 436:1)
٢٥ - آباد ہونا، بسنا۔
"خدا نے نوح اور اس کے بیٹے کو برکت دی اور انھیں کہا تم پھلو اور بڑھو اور زمین کو بھرو۔"      ( ١٩٢٤ء، موسٰی کی توریت مقدس، ٢٧ )
٢٦ - کسی کی لاعلمی میں اس کی دولت دوسرے لوگوں میں پہنچا دینا۔ (مہذب اللغات، 385:2)
فعل متعدی
١ - (خال ظرف میں) کوئی چیز ڈالنا، پُر کرنا۔
 خم فلک سے بھروں وہ شراب شیشے میں یقیں ہو ذروں کو ہے آفتاب شیشے میں    ( ١٨٤٦ء، کلیات آتش، ١١٨ )
٢ - (کسی خلا کو) پُر کرنا۔
"پیر کے زخم میں . لال مرچیں بھریں آگ لگ گئی۔"    ( ١٩٢٨ء، پس پردہ، ١٠٠ )
٣ - (کھلی ہوئی جگہ میں) انبار کرنا، ڈھیر لگانا۔
"اس تمام کھڑاگ کو میں یہاں بھرنا نہیں چاہتا۔"      ( ١٩٥٦ء، دوسری شام، ٨ )
٤ - (لحاف وغیرہ میں) روئی ڈالنا (نوراللغات، 724:1)
٥ - (گاڑی وغیرہ میں) مال لادنا، بار کرنا (جامع اللغات، 543:1)
٦ - (بندوق وغیرہ میں) بارود چھرے یا گولیاں ڈالنا۔
 چلکر بہار فوج مخالف اڑاتی ہے گویا بھری ہوئی ہے ہوائے خزاں سے توپ      ( ١٨٦٧ء، رشک، نوراللغات، ٧٢٥:١ )
٧ - [ چلم میں ]  تمباکو رکھ کر آگ ڈالنا۔
"چلم میں تمباکو رکھ کے اوس پر آگ رکھنے کو چلم بھرنا . بولتے ہیں۔"      ( ١٩٦١ء، مہذب اللغات، ٣٧٥:٢ )
٨ - (بغیر ضرورت) لکھنا، بھرتی کرنا۔
"دنیا بھر کی باتوں کو بھرتے چلے جاتے ہیں۔"      ( ١٩٥٣ء، مقدمہ دیوان حالی، ١٧ )
٩ - خانہ پری کرنا، (کسی فارم میں) اندراج کرنا۔ (جامع اللغات، 543:1)
"ملاقات کنندہ واقعی باہر گیا ہے اور اس نے ملاقاتیں کی ہیں یا اس نے گھر پر بیٹھ کر اپنی پرچیاں بھرلی ہیں۔"      ( ١٩٦٧ء، نفسیات کی بنیادیں، ٦٥٣ )
١٠ - تعویذ کے خانوں میں عبارت یا ہندسے لکھنا۔
 سینے کو چمن کرتے ہیں ناخن کی خراشیں وہ نقش میں بھرتا ہوں جو عامل نہیں بھرتا      ( ١٨٩٦ء، دیوان شرف، ٤٧ )
١١ - ذخیرہ کرنا، جمع کرنا۔
 سیکڑوں دل اک نگہہ پرے لیے ہیں اس نے مول ہو نہ ہو کچھ نفع لیکن جنس سستی ہی بھری      ( ١٩٦٢ء، ظفر (نوراللغات، ٧٢٤:١) )
١٢ - لتھیڑنا، آلودہ کرنا، دھبے ڈالنا۔
 روشنائی سے نہ بستے کو بھرو اس کو ہر دم صاف اور اجلا رکھو      ( ١٨٩٤ء، اردو کی پہلی کتاب، (آزاد)، ٧٧:٢ )
١٣ - بخشش کرنا، (دریا دلی سے) دینا، نہال کرنا، مالا مال کرنا۔
"پیٹ بھروں کو لوٹا اور بھوکوں کو بھرا۔"      ( ١٩٤٣ء، دلی کی چند عجیب ہستیاں، ١٦٤ )
١٤ - کفالت کرنا۔
"پھر اس کا ایسا ہے ہی کون جس کو بھرے گی۔"      ( ١٩٤٧ء، مضامین فرحت، ٥٣:٧ )
١٥ - (رقم وغیرہ) ادا کرنا، چکانا، بھگتان کرنا، قرضہ چکانا۔
"مجرم پر جرمانہ کیا اور اپنے پاس سے بھر دیا۔"    ( ١٩٠٧ء، اجتہاد، ١٨٠ )
١٦ - پورا کرنا، تلافی کرنا، نقصان پورا کرنا۔
"ساقی دوبارہ جاری کیا مگر اب اس کا نقصان کہاں سے بھرا جاتا۔"    ( ١٩٦١ء، گنجینہ گوہر، ٢٧ )
١٧ - لگائی بجھائی کرنا، (کسی کے خلاف) دل میں برائی ڈالنا۔
"بیویاں صاحبزادیاں جلتی ہیں اور بھرتی ہیں۔"    ( ١٨٨٨ء، طلسم ہوشربا، ٥١٣:٣ )
١٨ - (غلط طور پر) سکھانا، بڑھانا، اکسانا، ابھارنا۔
"اہل پولیس نے گواہوں کو خوب بھرا اور مصنوعی گواہ مقرر کیے۔"    ( ١٨٨٠ء، فسانۂ آزاد، ٥١٣:٣ )
١٩ - سہنا، برداشت کرنا۔
 جو ہم پر پڑے گی بھریں گے ہمیں غرض جو کریں گے کریں گے ہمیں    ( ١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بے نظیر، ٣٣٦ )
٢٠ - نباہنا، بھگتنا، گزارہ کرنا، پورا کرنا، گزارنا۔
 حالت نزع ہے جیتے ہیں تیرے ہجر میں خاک دن میں جو کچھ عمر کے ہیں آئینہ رو بھرتے ہیں    ( ١٨٥١ء، کلیات مومن، ١٠٥ )
٢١ - خوش و ناخوش بسر کرنا، جیسے تیسے گزارنا۔
"صالحہ بدنصیب لڑنے والی لڑکی نہ تھی، مرنے والی تھی اور بھرنے والی تھی۔"      ( ١٨٩٥ء، حیات صالحہ، ١٤٨ )