کھولنا

( کھولْنا )
{ کھول (و مجہول) + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے اردو قاعدے کے تحت ماخوذ مصدر ہے۔ اردو میں بطور فعل استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٥٠٣ء کو "نوسرہار" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - کسی بندھی ہوئی چیز (پھندے، گرہ) کا باز کرنا، وا کرنا۔
"دولت علیہ عثمانیہ کو خاکستر کرنے کی دھمکی دی تو ناچار یہ متبرک جھنڈا کھولا گیا تھا"      ( ١٩٢٨ء، حیرت دہلوی، مضامین حیرت، ٢٤ )
٢ - کسی بند چیز کا وا کرنا (جیسے دروازہ، آنکھیں وغیرہ)
"ان کے مزاج سے آشنا ہونے کی وجہ سے میں نے ان کے سامنے زبان نہیں کھولی اور نہ کوئی قدغن لگانے کی ہمت ہوئی"    ( ١٩٨١ء، آسماں کیسے کیسے، ٤١ )
٣ - [ مجازا ] بیدار کرنا، جگانا۔
 نور سے معمور ہو جاتا ہے دامانِ نظر کھولتی ہے چشم ظاہر کو ضیا تیری مگر    ( ١٩٠٥ء، بانگِ درا، ٣٧ )
٤ - قید سے آزاد کرنا، رہائی دینا (فرہنگ آصفیہ)
٥ - ظاہر یا منکشف کرنا۔
 میرے جھوٹ کو کھولو بھی اور تولو بھی تم لیکن اپنے سچ کو بھی میزان میں رکھنا    ( ١٩٨٦ء، بے آواز گلی کوچوں میں، ٦١ )
٦ - وضاحت سے بیان کرنا، تفصیل سے بتانا، کہنا۔
 سو یوں جبرئیل آفرمان بولا خدا کا امر جو فرمان کھولا    ( ١٨٣٠ء، نورنامہ (قلمی نسخہض، میاں احمد سورتی، ٦١ )
٧ - فاش کرنا، بھانڈا پھوڑنا۔
 چھپا رکھی تھیں دل نے کیسی کیسی رات کی باتیں ذرا سے اشکِ خوں نے کھول کر بس داستاں رکھ دی      ( ١٩٤٦ء، جلیل مانک پوری، روحِ سخن، ٥٠ )
٨ - پھاڑنا، چیرنا نیز شگاف دینا۔
"اگر ناسور کُھلا ہوا ہو تو اس کو نچوڑ کر پیپ نکالو، اگر کھلا ہوا نہ ہو تو اس کو کھولو اور مواد نکالو"      ( ١٩٤٧ء، جراحیاتِ زہراوی،١٥ )
٩ - شق کرنا، کھودنا (عموماً قبر کے لیے مستعمل)
"اصحاب نے بعد دفن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دریافت کر کے چاہا کہ اس چادر کو نکال لیں لیکن مزار مبارک کا کھولنا مناسب نہ جانا"      ( ١٨٩٣ء، رفاۃ المسلمین، ٩٤ )
١٠ - پردہ اُٹھانا یا ہٹانا، پوشش وغیرہ سرکانا، ننگا کرنا، لہرانا۔
 کیا ہوا غصہ نہ ہو، شدتِ سرما میں اگر آ گئے ہم بھی جو ٹک کھول رضائی تیری      ( ١٨١٨ء، انشاء، کلیات، ١٤٠ )
١١ - ادھیڑنا، سلائی دور کرنا۔ (فرہنگ آصفیہ)
١٢ - کسی پیچیدہ یا مشکل مسئلے کو حل کرنا۔ (نوراللغات)
١٣ - میل کچیل دور کرنا، صاف کرنا، کوڑا کرکٹ نکالنا۔ (نوراللغات)
١٤ - جاری کرنا، قائم کرنا، جیسے: قبر کھولنا، کارخانے میں کام کی ابتدا کرنا۔
"وہ وقت جب اعمال کے دفتر کھولے جائیں گے"      ( ١٩٨٨ء، جب دیواریں گریہ کرتی ہیں٩٩ )
١٥ - بادل یا گھٹا کا دور کرنا۔ (نوراللغات)
١٦ - حجاب دور کرنا، بے تکلف بنانا۔
 جب ہم سے نہیں وہ بولتے ہیں باتوں میں ہم ان کو کھولتے ہیں    ( ١٩٠٣ء، سفینۂ نوح،٩٦ )
١٧ - ہمراز بنانا، دل کا بھید لینا؛ کسی خاموش چیز کا گویا کرنا۔
 پاس آ کےضعیغہ نے بہت باتوں میں کھولا تیور وہ چڑھائے رہا کچھ منہ سے نہ بولا    ( ١٩١٥ء ذکرالشہادتیں، ٩٠ )
١٨ - جھجک دور کرنا، ڈر ختم کرنا (عموماً دل کے ساتھ مستعمل)
"اپنا دل کھولنا، جکچھ اپنا مدعا اچھے گا سونماز میں خداسوں بولنا"    ( ١٦٣٥ء، سب رس، ١٠٣ )
١٩ - چوڑا کرنا، فراغ یا وسیع کرنا۔ (فرہنگِ آصفیہ)
٢٠ - بحال کرنا، سلسلہ جاری کرنا، رکاوٹ دور کرنا (اٹکانا اور روکنا کا نقیص) (فرہنگِ آصفیہ)
٢١ - ہتھیار وغیرہ کا جسم سے الگ کرنا۔
 کمر سے اٹھ کے تیغ جانستاں آتش فشاں کھولی سبق آموزِ تاباتی ہوں انجم جس کے جوہر سے      ( ١٩٢٤ء، بانگِ درا، ٢٤٤ )
٢٢ - کھٹکا ہٹانا، تالے کو زنجیر سے دور کرنا، کنجی کے ذریعے قفل وا کرنا، مقفل چیز کو کنجی کے ذریعہ باز کرنا۔ (فرہنگِ آصفیہ، مہذب اللغات)
٢٣ - کسی بندھے ہوئے جانور کی چوری کرنا۔ (فرہنگِ آصفیہ، نوراللغات)
٢٤ - آنکھ قدح کرنا۔ (نوراللغات)
٢٥ - (احرام وغیرہ) اتارنا۔
 یہ روزِ عید ہے ہاں کر کے میکدے کا طواف کہو پکار کے اب کھولیں بادہ نوش احرام      ( ١٨٧٩ء، دیوانِ عیش، ٣٥ )
٢٦ - افتتاح کرنا۔
"٥مئی کو پرنس نے مینچسٹر میں صنعتوں کی نمائش کو کھولا"      ( ١٩٠٤ء سوانح عمری ملکۂ وکٹوریہ، ٥٦٤۔ )
٢٧ - ڈھکن وغیرہ ہٹانا (ہانڈی وغیرہ)
"جب ہنڈیا سن سن کرنے لگے تب چینی کھول کر دیکھو"      ( ١٩٠٦ء نعمت خانہ، ٢٣ )
٢٨ - کسی ہوئی چیز کو گھما گھما کر ڈھیلا کرنا یا باہر نکالنا۔
"دستے کو گھما گھما کر پیچ کھولنے کی ترکیب اس نے فوراً ہی سیکھ لی"      ( ١٩٣٢ء، عالم حیوانی، ٥٧٧ )
٢٩ - سُلجھانا (زلفوں کے خَم یا پیچ وغیرہ)
"اس ربع تحانی میں بھی عمارت بہت ہے اور زمین وسیع کھولی ہوئی ہے، اس زمین کو امریکا کہتے ہیں"      ( ١٨٠٢ء، رسالہ کائنات جو، ٤٨ )
  • to open
  • loosen
  • loose
  • let loose
  • set free
  • let out;  to unfasten
  • unite
  • unlock;  to unmoor (a boat);  to disentangle
  • unravel;  to solve;  to open out
  • unfold
  • display;  to explain;  to uncover
  • lay bare;  to disclose
  • revel.