متعدی

( مُتَعَدّی )
{ مُتَعَد + دی }
( عربی )

تفصیلات


عدد  مُتَعَدّی

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٩٦٧ء کو "نورالہدایہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - حد سے تجاوز کرنے والا، ظلم کرنے والا۔
"مرتہن نے اوس سے فائدہ حاصل کیا تو وہ متعدی ہو گیا، لیکن رہن باطل نہ ہو گی اس تعدی سے"      ( ١٨٦٧ء، نورالہدایہ (ترجمہ) ٩٠:٤ )
٢ - اُڑ کر لگنے والا، ایک دوسرے کو لگنے والا، پھیل جانے والا (مرض)، چھوت کی بیماری۔
"بیماریاں متعدی ہوا کرتی ہیں"    ( ١٩٩٤ء، قومی زبان، کراچی، مئی ٣٣ )
٣ - ایک سے دوسرے پر اثر کرنے والا، پھیل جانے والا (خیال، عقیدہ وغیرہ)
"محبت ایک متعدی جذبہ ہے جو ایک دل میں پیدا ہو کر دوسرے کے دل پر بھی اپنا اثر ڈالتا ہے"    ( ١٩٤٤ء، فطرتِ نسوانی، ٩٨ )
٤ - وہ اعمال یا عبادات جن سے دوسروں کو فائدہ پہنچے۔
"متعدی اور لازمی عبادات میں یکتا تھے"      ( ١٩٨٩ء، نقد ملفوظات، ١٧٦ )
٥ - [ قواعد ]  وہ فعل جسے فاعل اور مفعول دونوں کی ضرورت ہو، وہ فعل جس کا اثر فاعل سے گزر کر مفعول تک پہنچے۔
"اس کی قسمیں بیان کی ہیں پھر فعل کی اقسام لازم و متعدی کا ذکر ہے"      ( ١٩٨٩ء، قواعد صرف و نحو زبانِ اردو، ٢١ )