صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - کس قسم کا، کس طرح کا۔
"اینٹ گارا کیسا لگوایا ہے۔"
( ١٩٨٨ء، تبسم زیر لب، ٢٢ )
٢ - کس چیز کا، کس بات کا۔
ذوق دیدار میں بیخود ہوں نہ کہ مجھ سے حجاب اوٹھ گیا بیچ سے جب میں ہی تو پردا کیسا
( ١٨٦١ء، دیوان ناظم، ١٨ )
٣ - کس قدر، کتنا۔
"سولہ کی لڑکی دیکھو پہاڑ جیسی لگے گی اور سولہ کا لڑکا! کیسا معصوم، بھولا بھالا۔"
( ١٩٨٩ء، خوشبو کے جزیرے، ٦٨ )
٤ - کس کام کا، کس مطلب کا، بے سود، بے فائدہ ہے۔
خونِ دل پیتے دورِ مے و ساغر کیسا دل ہی بے چین جب اپنا ہو تو دلبر کیسا
( ١٨٧٤ء، نشیہ خسروانی، نواب، ٢١ )
٥ - کس طرح کا، کس ڈھنگ سے، کس انداز سے۔
ایّہا النّاس! گزرتا ہے زمانا کیسا اہلِ اسلام کو آزار ہے کیسا کیسا
( ١٩٠٥ء، یادگار داغ، ١٣٨ )
٦ - کیا ذکر، کیا مذکور۔
قفس کیسا مجھے رکھا گیا تنکوں کے زنداں میں بہت مشہور تھا میں نغمہ سنجانِ گلستان میں
( ١٩١٩ء، دُر شہوار بیخود، ٦٠ )
٧ - کہاں کا، کاہے کا۔
آئے بھی وہ جو شب وصل تو سونا کیسا خود مرا طالعِ بیدار بنے بیٹھے ہیں
( ١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بے نظیر، ١١٣ )
٨ - (استفسار کے لیے مستعمل) کیوں، کس لیے، کس وجہ سے۔
تم تو کہتے ہو نہیں بولتے ہم جھوٹ کبھی لے کے دل پھر یہ مکرنا مرے دلبر کیسا
( ١٩٠٥ء، دیوانِ انجم، ٦٢ )
٩ - کجا، درکنار۔
"ان سب روایات سے ہمارے ناظرین واقف ہونگے لیکن ہم ان واقعات سے استشہاد کرنا کیسا، ان کی طرف اشارہ بھی نہیں کرتے۔"
( ١٩١٥ء، فلسفہ اجتماع، ١١١ )
١٠ - مانند، مثل، جیسا۔
"اخبار کی ایڈیٹری یا وکالت مثل بھیک مانگنے یا نقالی کے ایسا پیشہ ہے۔"
( ١٩٠٣ء، عصر جدید، اکتوبر، ٣٦٥ )
١١ - اظہار تعجب کے لیے، عجیب و غریب، حیرت انگیز۔
"اس نے اپنے اتنے اچھے باپ کا کیسا بھیانک نقشہ تمہارے سامنے کھینچا تھا۔"
( ١٩٨٩ء، خوشبو کے جزیرے، ٤٢ )
١٢ - کس طرح کا، عموماً مزاج پرسی کے لیے (جیسے: اب آپ کا مزاج کیسا ہے
غیر کے غم میں وہ خاموش تھے میں نے پوچھا جی ہے کیسا تو کہا تیرا کلیجا کیسا
( ١٨٨٤ء، آفتابِ داغ، ١٠ )
١٣ - قرار واقعی سزا دینے کےغ موقع پر مستعمل، کیسی سزا دیتی ہوں۔
پھر بولی اوس کو بلاتی ہوں کیسا دیکھیوں ٹھیک بناتی ہوں
( ١٨٠٥ء، نظم رنگین، ٦١ )