مسکین

( مِسْکِین )
{ مِس + کِین }
( عربی )

تفصیلات


سکن  مِسْکِین

عکربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع استثنائی   : مَساکِین [مَسا + کِین]
جمع غیر ندائی   : مَسکِینوں [مَس + کِینوں (و مجہول)]
١ - عاجز، لاچار، ناتواں، بالکل بے قوت، خاکسار۔
"اور اب پتہ چلا کہ عبد الرب جو ہمارے ساتھ مسکین بنے چل رہے تھے اصل میں اس گھر کے داماد ہیں۔"      ( ١٩٨٤ء، زمیں اور فلک اور، ١١٤ )
٢ - مفلس،۔ غریب، محتاج، نادار،
"وہ غریب اور مسکین عورتوں کی ہمیشہ خبر گیری کرتی تھیں۔"      ( ١٩٩٨ء، قومی زبان، کراچی، اپریل، ١٢ )
٣ - [ فقہ ]  وہ جسے تنگ دستی اور فقیری نے بے حرکت اور ناطقت کر دیا ہو، جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو، نادار، جس کے پاس ایک یوم کی خوراک بھی نہ ہو۔
"مسکین کی صحیح تعریف یہ ہے کہ جس کے پاس اتنا مال نہ ہو کہ اس کی حاجات اصلیہ ضروریہ سے زائد بقدر نصاب ہو جائے اس سے کم مال ہو تو وہ بھی مسکین کی تعریف میں داخل ہے۔"      ( ١٩٧٢ء، معارف القرآن، ٦٠٨:٥ )
٤ - بھولا، سیدھا سادا، حلیم، بردبار۔
"بڑا نیک آدمی ہے مگر بھولا بہت ہے. یہ تو بڑا ہی مسکین آدمی ہے۔"      ( ١٩٩٥ء، افکار، کراچی، جنوری، فروری، ٦٥ )
٥ - ذلیل، خوار۔
"اگر دنیا کو دین کے ساتھ مستحکم رشتہ نہ تھا تو خدا تعالٰی نے بیچارے یہودیوں کو دنیا میں ذلیل اور مسکین کیوں کیا۔"      ( ١٨٧٦ء، تہذیب الاخلاق، ١٦٢:٢ )
٦ - حقیر، ناچیز۔
"ہم اس مکین پرچے کے ذریعے سے ہندوستان میں وہ کچھ کریں گے جو اسٹیل اور اڑلیں نے انگلستان میں کیا۔"      ( ١٨٧٦ء، تہذیب الاخلاق، ٤٩٣:٢ )