تمنا

( تَمَنّا )
{ تَمَن + نا }
( عربی )

تفصیلات


منی  تَمَنّا

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں فارسی سے داخل ہوا اور اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٧١٣ء کو "دیوانِ فائز دہلوی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : تَمَنَّائیں [تَمن + نا + ایں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : تمَنَّاؤں [تَمن + نا + اوں (و مجہول)]
١ - آرزو، طلب، خواہش۔
 سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے      ( ١٩٠٥ء، بانگِ درا، ١١٢ )
٢ - اشتیاق، ارمان، چاؤ۔
 تمنا تھی کہ ہم بھی جان اپنی نذر کر دیتے سوال اٹھا ہے مظلومانِ ترکی کی اعانت کا      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ١٠ )
٣ - توقع، امید۔
 کیا جانے کیا تمنا رکھتے ہیں یار ہم سے اندوہ ایک جی کو اکثر رہا کرے ہے      ( ١٨١٠ء، کلیات میر، ٥٤٢ )
٤ - [ قواعد ]  تمنائی، فعل ماضی کی چھ قسموں میں سے ایک قسم۔ اس فعل سے عموماً تمنا ظاہر ہوتی ہے۔
"ذیل کے جملوں سے وضع، شرط یا تمنا جدا جدا چھانٹو۔"      ( ١٩٤٠ء، قواعد اردو، ٩٦:٢ )