مسودہ

( مُسَوَّدَہ )
{ مُسَوْ + وَدَہ }
( عربی )

تفصیلات


تود  مُسَوَّدَہ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٧٣ء کو "کلیات منیر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : مُسَوَّدے [مُسَوْ + وَدے]
جمع   : مُسَوَّدے [مُسَوْ + وَدے]
جمع غیر ندائی   : مُسَوَّدوں [مُسَوْ + وَدوں (و مجہول)]
١ - لکھا ہوا، سیاہ کیا گیا، وہ عبارت جو بطور خاکہ لکھی ہو، ابتدائی تحریر جس میں اصلاح و ترمیم کی گنجائش ہو نیز اصل تحریر کسی مضمون یا کتاب کی جو مصنف کے قلم کی ہو۔
"ایک نامکمل ناول کا مسودہ دیکھ رہی اور سبز موجوں کی موسیقی سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔"      ( ١٩٩٠ء، کالی حویلی، ١٥٩ )
٢ - منصوبہ، ارادہ، مدعا، مطلب، مضمون۔
 پورا ہوا نہ ایک بھی اس دل کا مسودہ فرسودہ لاکھ بار قلم ہو کے رہ گیا      ( ١٨٧٨ء، گلزار داغ، ٦٣ )
٣ - [ بازاری ]  بیٹا، پسر۔ (ماخوذ : فرہنگ آصفیہ)
  • the first sketch
  • or rough draft;  the original draft;  a draft
  • a bill.