نرگس

( نَرْگِس )
{ نَر + گِس }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی لفظ ہے۔ فارسی سے اصل مفہوم کے ساتھ اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - ایک قسم کے پودے اور اس پھول کا نام جس میں صرف چھ پتیاں ہوتی ہیں جو پیالے اور آنکھ سے بہت مشابہ ہوتا ہے، نرگس کی قسم کا ایک پودا جس کے پتے گھاس کی مانند مگر ذرا چوٹے ہوتے ہیں موسم سرما میں بیچ میں سے ایک شاخ نکلتی ہے جس پر سفید اور نہایت خوشبودار پھول نکلتے ہیں جن کے درمیان میں پتوں کا زرد ہالہ سا ہوتا ہے نیز اس پودے کا پھول، نرجس (انگریزی: Narcissus)
"نرگس، جوہی، یاسمین سبھی اپنی اپنی خوشبو کے ساتھ زندہ تھے۔"      ( ١٩٨٩ء، مردِ ابریشم، ١١٥ )
٢ - [ ادب ]  شعرا چشمِ معشوق سے تشبیہ دیتے ہیں۔
 ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا چمن میں دیدہ وَر پیدا      ( ١٩٢٤ء، بانگِ درا، ٣٠٦ )
٣ - [ تصوف ]  نرگس، اس سے مراد چشمِ عارف جو حیرت محمودہ سے سرفراز ہو۔ (مصباح التعرف، 258)۔
  • The narcissus;  jonquil;  (met.) the eye of a mistress