مالش

( مالِش )
{ ما + لِش }
( فارسی )

تفصیلات


مالیدن  مالِش

فارسی مصدر 'مالیدن' سے حاصل مصدر 'مالش' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٨١٨ء، کو "کلیات انشا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : مالِشیں [ما + لِشیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : مالِشوں [ما + لِشوں(ومجہول)]
١ - ملنا، رگڑنا، سختی۔
"اس نے جلدی جلدی رگڑ رگڑ کر منہ دھویا، موچھوں کو جن پر سارے سارے دن مالش رہتی تھی بل نکال کر سیدھا کیا"      ( ١٨٨٥ء، فسانۂ مبتلا، ١٠٤ )
٢ - جی کامتلانا، متلی
"ان سے یہ جزان ارتکازوں کے جو انتہائی کم زور ہوں باقی تمام ارتکازوں میں طبیعت مالش کرنے لگتی ہے"      ( ١٩٦٩ء، نفسیات کی بنیادیں، ٣٩٩ )
٣ - کسی چیز مثلاً تیل وغیرہ کو جسم پر مل کر جذب کرنا۔
"اس کی پیشانی اور کنپٹیوں کے درمیانی حصوں پر خون کی مالش کی"      ( ١٩٩٠ء، بھولی بسری کہانیاں، کھر، ١٨٦ )
٤ - کھریرا پھیرنا، کھریرا کرنا
"سائیسوں پر تاکید رکھنی چاہیے کہ مالش مستعدی اور محنت کے ساتھ کریں"۔      ( ١٩١٦ء، معاشرت(سلطان جہاں بیگم)١٩٠ )
٥ - صیقل، جلا
 مالش نہ پائیں سنگ حوارث کی نیک ذات صیقل کو تیغ چوب کے کیا چاہیے کرنڈ      ( ١٧٩١ء، حسرت (جعفر علی | کلیات، ١٦٢) )
٦ - سرزش، سرکوبی، سزا
"حریف باز نہ آتا تو وہ ہجو سے حریف کی ایسی مالش کرتے کہ زندگی بھر وہ ادھر کا رخ نہ کرتا"      ( ١٩٧٥ء، تاریخ ادب اردو ٦٥٩:٢ )