تاراج

( تاراج )
{ تا + راج }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی اسم اردو میں بعینہ بطور اسم استعمال ہوتا ہے تحریراً ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ(ق)" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - لوٹ مار، غارت، دست برد، برباد۔
"وہ شخص جس کی زندگی غریبوں کے قبرستانوں کی طرح تاراج ہے اس مفلس فقیر آدمی کو تو شہنشاہ بناتا ہے۔"      ( ١٩٠٧ء، سفینہ خون، ص ٥٣ )
٢ - [ تصوف ]  سالک کا اختیار کل اعمال اور احوال ظاہری اور باطنی میں سلب ہو جانے کو کہتے ہیں۔
"سالک کا اختیار کل اعمال اور احوال ظاہری اور باطنی میں سلب ہو جانے کو کہتے ہیں۔"      ( مصباح التعرف، ص ٦٩ )