تباہی

( تَباہی )
{ تَبا + ہی }

تفصیلات


تَباہ  تَباہی

فارسی زبان سے اسم صفت 'تباہ' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگائی گئی ہے۔ اردو میں ١٧٧٥ء کو 'مثنویات حسن" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : تَباہِیاں [تَبا + ہِیاں]
جمع غیر ندائی   : تَباہِیوں [تَبا + ہِیوں (و مجہول)]
١ - خرابی، بربادی۔
 ہوا میں اینڈتی ہوئی فضا میں جھومتی ہوئی تحمل و شکیب کی تباہیاں لیے ہوئے    ( ١٩٣٣ء، سیف و سبو، ٨٧ )
٢ - اختتام، نیست و نابود۔
'اسلام کا وجود حقیقۃً ان مظالم کی تباہی اور حقوق اللہ کی تصریح تھی۔"    ( ١٩١٢ء، شہید مغرب، ٧٢ )
٣ - ڈوبنے یا ڈبونے کا عمل؛ ٹوٹ پھوٹ یا تتر بتر ہونے کی حالت۔
 اک مدعی کی کشتی راحت نصیب ساحل اور اک مرا سفینہ پروردۂ تباہی    ( ١٩١٩ء، رعب، کلیات، ٣٢٨ )
٤ - آفت، مصیبت، بلا۔
'انھوں نے دعا کی اور تباہی دور ہو کر کھیتی باڑی سرسبز ہو گئی۔"      ( ١٩٣٤ء، قرآنی قصے، خیری، ٢١ )
٥ - شکستہ حالی، مفلسی۔
'نواب صفدر جنگ کی وفات کے بعد اس نئی بستی پر چند روز کے لیے تباہی برس گئی۔"      ( ١٩٢٦ء، شرر، مشرقی تمدن کا آخری نمونہ، ٢١ )