پابگل

( پابَگِل )
{ پا + بَگِل }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی ترکیب ہے۔ فارسی اسم 'پا' کے بعد 'ب' بطور حرفِ جار لگا کر فارسی اسم جامد 'گل' ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور ١٧٠٧ء کو "کلیاتِ ولی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - (لفظاً) دلدل میں پھنسا ہوا، (مجازاً) بے بس، عاجز و مجبور۔
 صدی ہونے کو آئی بیسویں اور پابگل ہو تم تماری عادتیں ہیں عہد دقیانوس کی ساری      ( ١٩٣١ء، بہارستان، ٦١٧ )
٢ - بے حس و حرکت، ساکت۔
"جن کی خوش قاضی کے سامنے سروسہی پابگل اور جن کے رخسارِ تاباں کے مقابل آفتاب خجل ہے۔"      ( ١٩٣٠ء، اردو گلستان، ١٨٧ )