عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٦٠٣ء کو "شرحِ تمہیدات" میں مستعمل ملتا ہے۔
"وہ مہربان ہو کر مدعا پوچھے گا اور خدا کے فضل و کرم سے تیری مراد پوری ہو گی۔"
( ١٩٧٨ء، براہوی لوک کہانیاں، ٣٧ )
٢ - فضیلت، بڑائی بزرگی۔
"سودا کو اردو ہجو و ہجا میں نہ صرف فضلِ تقدم حاصل ہے بلکہ انکے کلام سے طنزیات کی بہترین صلاحیت و استعداد بھی نمایاں ہے۔"
( ١٩٣٣ء، طنزیات و مضحکات، ٤٦ )
٣ - بخشش، عطا، احسان۔
"یہ فضل میرا ہے کہ جس کو جو چاہوں وہ دوں۔"
( ١٨٧٣ء، مظہر العجائب (ترجمہ)، ٦٢ )
٤ - زیادتی، افزونی۔
"جُو کا مبادلہ جو سے جوی کا توں اوردست بدست چائے اور فضل (زیادتی) سود ہے۔"
( ١٩٧٤ء، فکر و نظر، اسلام آباد جنوری،خ ٥٢٥ )
٥ - بچوں کے ڈرانے کا ایک فرضی نام جیسے دال چپاتی، اللہ میاں کی بھینس، ہوّا وغیرہ مثلاً اللہ میاں کے فضل دیکھ یہ روتا ہے۔" (فرہنگِ صیغہ)