ترنج

( تُرَنْج )
{ تُرَنْج }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم ہے اردو میں اصل معنی اور حالت میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦١١ء میں "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - ایک قسم کا بڑا انیبو، گلگل، چکوترا، کھٹا، کولا نیز اس کا درخت، اترج۔
"کل کنیزوں نے نارنگیوں اور نیبوں اور ترنجوں سے مارنا شروع کیا۔"      ( ١٩٤٠ء، الف لیلہ و لیلہ، ٣٣٤:١ )
٢ - کیری یا پان کی شکل کا بوٹا جو کاڑھا یا بنا جائے، بوٹا، پان۔
"ایسے ایسے ترنج اور بیل دل سے نکالتی اور ہاتھ سے بناتی کہ وہ پھوپھی یا استانی، جو کچھ تھی دنگ رہ جاتی۔"      ( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٨٣ )
٣ - مہین کپڑے کی ایک قسم جو آرائش کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، آرائشی ٹشو (پلیٹس)۔
٤ - سلوٹ، شکن، لکیر؛ چیں برچیں؛ (مجازاً) خوش رو رہنا (بمقابلہ سرکہ جبیں)۔
 بشر ے ہووے اگر لغزش مسرت خیز ہزار سرکہ جبیں شہ ہو، یہ ترنج رہیں      ( ١٨٧٤ء، نتائج المعانی، ٥٦ )
٥ - [ کنایۃ ]  آفتاب
 ملک دیس کا جوں چھپایا ترنج جوں نارنج یوسف کا پکڑنا بھی گنج      ( ١٦٤٩ء، خاورنامہ، ١٤٢ )
٦ - آتش بازی کی ایک قسم جس کی شکل چکوترے سے مشابہ ہوتی ہے اسے تومڑی بھی کہتے ہیں۔
"آدھا ترنج اس کا گولے کی طرح پھٹ کر اژدر ظلمات کے سینے کے پار ہو گیا۔"      ( ١٨٩٠ء، طلسم ہوش ربا، ٦٨:٤ )