صفت ذاتی ( مذکر )
١ - مردہ، مرا ہوا، بے جان؛ بے حس و حرکت۔
"میری ہستی صرف اس ظاہر کے بدن کا ہونا نہیں ہے . اس میں جان نہیں ہوتی جس کے بغیر وہ مردار ہوتا ہے۔"
( ١٨٩٤ء، تعلیم الاخلاق، ٥ )
٢ - کمزور، نحیف، لاغر
"شاید مری موت قریب ہے جنگل سے کوئی شیر بھیڑیا نکل آئے گا مجھ مردار کو کھا جائے گا۔"
( ١٨٩١ء، طلسم ہوشربا، ١٥٦:٥ )
٣ - [ کنایۃ ] بے وقعت، بے معنی، بے کار۔
"اسی سے یہ بھی سمجھ لو کہ کس طرح الفاظ محاورے سے گر کر مردار ہو جاتے ہیں۔"
( ١٨٨٧ء، سخندان فارس، ٤١:٢ )
٤ - [ مجازا ] بدقسمت، نصیب، منحوس۔ (جامع اللغات)
٥ - [ مجازا ] ناپک، حرام، غیر مباح، ناجائز۔
تجارات کو کھیتی کو دشوار سمجھیں فرنگی کے پیسے کو مردار سمجھیں
( ١٨٧٩ء، مسدس حالی، ٤٧ )
٦ - [ عور ] نابکار، نالائق، جاہل، بدھو، ان پڑھ۔
"اس مردار کو اتنا پڑھا سمجھا دیا تھا، مگر جب بولی الٹی ہی بولی۔"
( ١٨٩٦ء، شاہد رعنا، ٤٩ )
٧ - [ مونث ] کلمۂ تحقیر جو غصے اور ناراضی کی حالت میں عموماً عورت سے کہا جاتا ہے، فاحشہ، بدبخت، پلید و نیز مطلق کمبخت، ذلیل (دنیا کے لیے بھی مستعمل)۔
"لڑائی کی وجہ اس کی وہ مردار عیسائی منگیتر تھی جو جانے کہاں سے ٹپک پڑی تھی۔"
( ١٩٧٨ء، فصل گل آئی یا اجل آئی، ١٤١ )