رنگت

( رَنْگَت )
{ رَن (ن غنہ) + گَت }
( فارسی )

تفصیلات


رَنْگ  رَنْگَت

فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'رنگ' کے ساتھ 'ت' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے 'رنگت' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٤٨ء کو "تاریخ ممالک چین" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : رَنْگَتیں [رَن (ن غنہ) + گَتیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : رَنْگَتوں [رَن (ن غنہ) + گَتوں (و مجہول)]
١ - کیفیت، رنگ و روپ۔
"اس کی زیادہ سرخ رنگت، دانے، چھالے یا پیپ وغیرہ بھی تندرستی کی علامت نہیں۔"      ( ١٩٨٠ء، جانوروں کے متعدی امراض، ١٧ )
٢ - حالت، کیفیت۔
"جیسے جیسے کپڑے نالی سے زمین پراتے جا رہے ہیں، ان کی رنگت میں تبدیلی ہوتی جا رہی ہے۔"    ( ١٩٨١ء، قطب نما، ١١١ )
٣ - منظر، ماحول۔
 صحرائے ہولناک رنگت عجیب تھی جس چیز پر نگاہ اٹھاؤ مہیب تھی    ( ١٩٢٧ء، شاد، مراثی، ١٣٥:٢ )
٤ - [ معماری ]  آوٹ لائن، خاکہ۔
"قاعدہ یہ ہے کہ پہلے دیوار بنتی ہے پھر اس پر رنگت (آؤٹ لائن) دے کے پھول پتی کا ڈول ڈالا جاتا ہے۔"      ( ١٩٣١ء، اودھ پنچ، لکھنو، ١٦، ٤٥:٥ )
٥ - لون کے سفوف جو مختلف رنگت کے ہوتے ہیں اور کپڑا وغیرہ رنگنے کے کام آتے ہیں۔
"قدیم تر نظام میں، رنگت مخصوص طور پر متعدد لونی رنگوں کی طرف اشارہ کرتی ہے، سرخ، زرد، سبز، نیلا۔"      ( ١٩٦٩ء، نفسیات کی بنیادیں (ترجمہ)، ٣١١ )