اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - لون کے سفوف جو مختلف رنگت کے ہوتے ہیں اور کپڑا وغیرہ رنگنے کے کام آتے ہیں۔
"میرے تکیہ کے نیچے سے ایک آنہ لے لے اور بھاگ کر ایسا رنگ ایک پڑیا لے آ"
( ١٩٨٥ء، کچھ دیر پہلے نیند سے، ١٩ )
٢ - لکڑی، لوہے یا دیوار وغیرہ پر رنگ کرنے کا مسالہ یا روغن، پالش۔
"رنگ کو نرم برش کے یکساں دباؤ سے ریشوں کے مطابق لگائیں بہتر ہے کہ پہلے ہلکے رنگ کے دو کوٹ کئے جائیں"
( ١٩٦٧ء، لکڑی کا کام، ٤٩ )
٣ - چہرے کی وہ کیفیت یا اتار چڑھاؤ جو جذباتی دباؤ سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔
بکھرے رخِ روشن پہ جو ہیں گیسو شب رنگ نکلا ہے ترے حسنِ دل آرا کا غضب رنگ
( ١٩١٢ء، کلیات حسرت، ٢٢ )
٤ - سرخی، زردی، سیاہی، یا ان کی ترکیب کے روپ میں ایک قائم بالغیر (عرض)، لطیف، جاذب نظر کیفیت۔
کیا کیجئے بیاں اس تنِ نازک کی حقیقت خوشبو میں ہے گل بو تو لطافت میں ہے سب رنگ
( ١٩١٢ء، کلیات حسرت، ٢٢ )
٥ - [ مجازا ] رنگین پانی۔
"کوئی چائے کا رنگ پیالے میں ڈالے اور آپ یہ سمجھ کر اسے پی لیں کہ بیئر کی شراب ہی تو ہے"
( ١٩٦٣ء، تجزیۂ نفس (ترجمہ)، ٢٨١ )
٦ - [ کنایۃ ] رنگین پانی ایک دوسرے پر ڈالنے کا مقرر دن، ہولی کا تیوہار۔
آج رنگ ہے برج میں میں تو ہولی کھیلن جاؤنگی
( ١٩٨٨ء، فرہنگِ آصفیہ، ٣٧١:٢ )
٧ - پردہ، حجاب۔
مجھ صدق صرف عدل سوں اے اہلِ حیا دیکھ تجھ علم کے چہرے پہ نہیں رنگ گماں کا
( ١٧٠٧ء، ولی، ک، ٢٣ )
٨ - روش، طرز، طور، طریقہ، وضع، ڈھب ادا وغیرہ۔
جنگل اُگا تھا حدِّ نظر تک صداؤں کا دیکھا جو مڑ کے رنگ ہی بدلا تھا گاؤں کا
( ١٩٧١ء، شیشے کے پیرہن، ١٩ )
٩ - حالت، حال احوال، عالم، گت وغیرہ۔
"پانچ چھ سال بمبئی کے زمانۂ قیام میں تمہاری طبعیت کا کیا رنگ رہا"
( ١٩٣٩ء، شمع، ٨١ )
١٠ - کیفیت
"اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ جنگ کا رنگ کیا ہے"
( ١٩٧٧ء، میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا، ١٤٧ )
١١ - حسن و دلکشی، رنگینی، بہار، رونق، جوبن، آب و تاب، چمک دمک وغیرہ۔
کبھی چھپتا نہیں اس شوخ طر حدار کا رنگ میرے سرکار کی رنگت مرے سرکار کارنگ
( ١٩٠٣ء، سفینۂ لوح، ٧٤ )
١٢ - دھوم دھام، چرچا، سماں، منظر۔
دکھلا رہے تھے رنگ علی کی لڑائی کا اعدا کے خوں سے لال تھا سبزہ ترائی کا
( ١٨٧٤ء، انیس (مہذب اللغات)، ١١ )
١٣ - رقص و نغمہ، سازو سرود، عیش و نشاط، کھیل تماشا، تفریح، مستی وغیرہ کی کیفیت جو وجد یا مذکورہ دونوں باتوں سے پیدا ہو۔
"اب دورِ محمد شاہی شروع ہوتا ہے۔ آج رنگ ہے"
( ١٩٤٠ء، ہم اور وہ، ٢٤ )
١٤ - گانا بجانا، رقص و نغمہ، رنگ رلیاں، سامان عیش و نشاط، موسیقی وغیرہ، راگ رنگ۔
"جب ہم مغل تاریخ کو پڑھتے ہیں تو اس میں . موسیقی و راگ رنگ کی محفلیں، لباس و طعام کی تفصیلات اور زندگی کی آسائش کے وہ واقعات ہوتے ہیں جو ہمارے ذہن کو مرعوب کرتے ہیں"
( ١٩٨٦ء، تاریخ اور آگہی، ١٣ )
١٥ - خوشی یا خوشحالی کی کیفیت، لطف، مزہ۔
دشتِ بے خواب کے کیا رنگ تھے رات مجھ میں ہی جاگ رہا تھا وہ بھی
( ١٩٧٣ء، دریا آخر دریا ہے، ٤٠ )
١٦ - دستور، قاعدہ، قانون، رسم، ریت، مسلک، مشرب۔
"ایران کو اسلامی رنگ دینے میں عمر بن عبدالعزیز اور ہشام کی مالی حکمت عملی کو بھی خاصا دخل تھا"
( ١٩٦٧ء، دائرہ معارف اسلامیہ، ٦٤:٣ )
١٧ - قسم، نوع، بھانت، طرح، وضع۔
مرتا ہوں لکھنؤ کی تمنا میں اے منیر اللہ عیش باغ کا مجکو دکھائے رنگ
( ١٨٤٧ء، کلیاتِ منیر، ١٤٦:١ )
١٨ - لطف انگیز مشغلہ، تفریحی شغل۔
عہدِ مستی کے اب کہاں وہ رنگ ساغر بادہ ہے نہ کاسۂ بنگ
( ١٩١٢ء، کلیاتِ حسرت، ٢٢ )
١٩ - مقبولیت، ساکھ وغیرہ، اثر، رسوخ، سرسبزی۔
"برسوں کے جمے ہوئے رنگ ایسے تھوڑے ہیں کہ پولے ہاتھ صاف ہو جائیں"
( ١٩٠٨ء، صبحِ زندگی، ٢٣ )
٢٠ - باطن کا وہ حال جو ظاہر کو دیکھ کر سمجھ میں آئے، آثار، کیفیت، حالت۔
عیش دل میں اس پری وش کے ہماری آہ کا رنگ اعدا سے ہوا ظاہر اثر ہونے کو ہے
( ١٨٧٩ء، دیوانِ عش دہلوی، ١٧٩ )
٢١ - وہ خصوصیات جن سے ایک کا کلام دوسرے سے ممتاز ہو، اندازِ تحریر کلام کا انداز یا اسلوب، طرزِ تحریر، اندازِ بیاں۔
"ڈاکٹر صاحب نے فرمایا آپ اپنے ہی رنگ میں لکھیے"
( ١٩٢٨ء، نکاتِ رموزی، ١٨٢: ٢ )
٢٢ - شکل، صورت، ہیئت، بھیس۔
"تبریز پہنچ کر . دارابی نے کھلے مقابلے کا رنگ اختیار کر لیا"
( ١٩٦٧ء، دائرہ معارف اسلامیہ، ٨٣١:٣ )
٢٣ - [ تصوف ] عشقِ الٰہی یا معرفتِ باری تعالٰی کا سرور۔
آج ہے خواجہ کے گھر ہولی رچی چل سکھی کچھ ہم کو بھی مل جائے رنگ
( ١٩٣٧ء، ترانۂ مسرت، ٩٤ )
٢٤ - [ تاش ] چار مختلف (تیرہ پتوں کی) بازیوں میں سے ہر بازی کا پتا (بقیہ بارہ پتوں سے)۔
"فرض کیجئے کہ اس کے ہاتھ میں ایک رنگ (یا بازی) کے مسلسل ٥ پتے . تو ان میں سے چار کو میدان میں ڈال دینا چاہیے۔"
( ١٩٦١ء، نوائے ادب، اپریل )
٢٥ - [ چوسر ] دو مختلف (چار چار گوٹ کی) بازیوں میں سے ہر بازی کی گوٹ (بقیہ تین کی نسبت سے)۔
مقدر کا پانسا بدلتا نہیں فلک رنگ کی فرد چلتا نہیں
( ١٨٧٨ء، بحر (امداد علی)، نوراللغات )
٢٦ - وصف، شان، خصوصیت، یا خصوصیات۔
اپنے اپنے رنگ میں ہو لاجواب اے حسن و عشق ضودۂ عالم ہے دونوں کی جناب اے حسن و عشق
( ١٩١٦ء، نقوش مانی، ٣٧ )
٢٧ - ہمسر، جوڑ۔
"یا تو رنگ اختیار کرے یا بے رنگی سے گذر جائے تاکہ سوزِ جگر کی نشانی حاصل کر سکے۔"
( ١٩٦٤ء، غالب کون ہے، ١٢٠ )
٢٨ - قومیت، اختلافِ ملت کا امتیاز۔
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا نہ تو رانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
( ١٩٢٤ء، بانگِ درا، ٣٠٨ )
٢٩ - [ ریاضی ] وزن کا ایک پیمانہ تقریباً سوا سیر۔
٤ کنگی : ١ رنگ۔
( ١٨٥٦ء، کتاب حساب، ١٢١ )
٣٠ - مزاج، رحجان، فکر۔
"صوفی ہر ایک کے رنگِ طبیعت کو دیکھتا ہے اور اُسی ڈھنگ سے اس کی تربیت کرتا ہے۔"
( ١٩٣٣ء، اردو کی نشودنما میں صوفیائے کرام کا کام، ٦ )
٣١ - حرف تشہیہ، مثل، طرح۔
ہوئی سر مندل چشمہ رنگ رس بھری ہینگی سوتس پر ہزاروں جھری دیکھ کر لوگ تھوڑے ٹوٹ پڑے پکے پھوڑے کے رنگ پھوٹ پڑے
( ١٦٥٧ء، گلشنِ عشق، ٢٧ )( ١٨١٠ء، کلیاتِ میر، ١٠٦٩:٢ )
٣٢ - رنگین یا سبز ہونے والا، اگنے والا۔
"لالہ خود رنگ یا خود رنگ لوئی۔"
( ١٨٨٨ء، فرہنگِ آصفیہ، ٢ )
١ - رنگ رلیاں منانا
گلچھّرے اڑانا، عیش و عشرت کی باتیں کرنا۔"رات رنگین ہے اور کسی شہنازِ لالہ رُخ کے کاشانے میں رنگ رلیاں منانے کی ترغیب دیتی ہے۔"
( ١٩٦١ء، جدید شاعری، ٤٠١ )
٢ - رَنگ بَدلنا | رَنْگ دل جانا
حالت دگرگوں ہونا، صورتِ حال بگڑ جانا۔"جب اسے درد معلوم ہونے لگا اور اس کا رنگ بدل گیا تو اس نے اپنے ایک غلام کو بلا لیا۔"
( ١٩٤٥ء، الف لیلہ و لیلہ، ١٢:٦ )
بدل جانا، تبدیل ہو جانا (طور طریقہ، تاثیر، طرزروشن، وضع قطع وغیرہ)؛ منقلب ہو جانا۔"حکومت نے کیسے کیسے رنگ بدلے ہیں۔"
( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ١٢٨:٢ )
متلّون مزاج ہونا۔"ہر مقام پر رنگ بدلنا اور بات بات میں روانگی کرنا، عقل کے بھی خلاف ہے۔"
( ١٨٨٦ء، آیاتِ بیّنات، ١، ٧٦:٢ )
رنگ روپ شکل و صورت ہیئت کو تبدیل کرنا۔"میں ٹکٹکی باندھے چند ننھی ننھی بدلیوں کو دیکھ رہا تھا جو بار بار اپنا رنگ بدل رہی تھیں۔"
( ١٩٤٢ء، کرنیں، ٢٠١ )
٣ - رنگ بھرنا
رنگ لگانا، رنگین بنانا۔ اب تم سوچو، اب تم چاہو، جو بھی چاہے رنگ بھرو ہم نے تو اک نقشہ کھینچا اک خاکہ تیار کیا
( ١٩٧٨ء، جاں نثار اختر، سکوتِ شب، ١٨ )
دلچسپ بنانا، کسی بات کو بڑھانا، چڑھانا۔ کچھ تو فراز اپنے قصّے بھی ایسے ہی تھے اور کچھ کہنے والوں نے بھی رنگ بھرا ہے
( ١٩٨٦ء، بے آواز گلی کوچوں میں، ٧٢ )
خوبصورت بنانا، دلآویزی پیدا کرنا، دلکش اور دلفریب بنانا۔ لُہو اُبَل کے بہاروں میں رنگ بھرنے لگا اُفق کی کوکھ سے سورج نئا ابھرنے ُلگا
( ١٩٧١ء، شیشے کے پیرہن، ١٥٠ )
٤ - رَنْگ پَکَڑْنا
رنگ قبول کرنا، رنگت اختیار کرنا؛ (اپنے میں) رنگا جانا۔ کشتہ ہوں میں بیزاری جلاّد کا آتش تلوار نہیں رنگ پکڑتی ہے لہو کا
( ١٨٤٦ء، کلیات آتش، ١٤٧ )
بارونق ہونا، بہار کا شباب پر ہونا، پُربہار یا سرسبز ہونا۔"گوالیار میں موسم نے کیا رنگ پکڑا ہے۔"
( ١٩٤٧ء، حرف آشنا، ٧٢ )
مقبول ہونا، پذیرائی ہونا۔"انکے دل بڑھانے سے کلام نے روز بروز رنگ پکڑنا شروع کیا ہے۔"
( ١٨٨٠ء، آبِ حیات، ٣٤٦ )
٥ - رنگ لانا
رنگین ہو جانا، رنگ پکڑنا، رنگ کا سوخ اور دیدہ زیب دکھائی دینا، رنگینی دکھانا۔ پوچھا جو میں نے خون دل لاتا ہے رنگ کس طرح دستِ حنائی دُور سے مجھ کو دکھا دیا کہ یوں
( ١٩٧١ء، دیوان ناسخ، ٧٨:٢ )
خوشنمائی ظاہر کرنا، رنگینی ظاہر کرنا، شوخی ظاہر کرنا۔ سرخرو ہوتا ہے انساں آفتیں آنے کے بعد رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پِس جانے کے بعد
( لا اعلم (علم مجلسی، ٨٣:١) )
تکرار کرنا، غل مچانا، جھگڑا کرنا۔ لگاوٹ سے لگاتا ہے حنا غیر ان کے ہاتھوں میں وہ مجھ سے رنگ کیوں لاتے ہیں میں نے کیا لگا مارا
( ١٨٤٩ء، کلیاتِ ظفر، ٥:٢ )
رُخ موڑنا، انداز بدلنا۔"جہاں دو آدمی مل کر بیٹھیں گے وہاں دلوں میں فرق آنا ایک لازمی امر ہے اس لیے وہ جاتے ہی گفتگو کا رنگ بدل دیتا ہے۔"
( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ٣٤:٧ )
خیالات بدلنا، نظریات تبدیل ہونا، مقررہ روش سے ہٹ جانا۔"ڈی۔بی۔در ایک رنگ بدلنے والی لومڑی کی طرح کبھی اس گروپ اور کبھی اس گروپ کے ساتھ تھوتھنی ملاتے رہے۔"
( ١٩٨٢ء، آتش چنار، ٥٢٧ )
٦ - رنگ فق ہونا
چہرے کی رنگت کا بدل جانا، چہرہ اتر جانا، رنگت پھیکی پڑ جانا (صدمے، خوف، پریشانی، شر وغیرہ کے باعث)۔"مہاشے کا رنگ فق ہو چکا تھا۔"
( ١٩٨٢، آتش چنار، )
٧ - رنگ اٹھ جانا
ختم ہو جانا، کم ہو جانا، رواج جاتا رہنا۔"غزل کی جیسی چاہیے ویسی تعریف نہیں ہوئی وجہ یہ ہے کہ یہ رنگ اب دہلی سے اٹھتا جاتا ہے۔"
( ١٩٢٨ء، آخری شمع، ٦٠ )
٨ - رنگ اختیار کرنا
اندازا بنانا۔ نوائے دل میں وہ آہنگ دل کشا نہ رہا سخن نے رنگ کیا اختیار اور ہی کچھ
( ١٩٨١ء، حرف دل رس، ١٤٢ )
٩ - رنگ اڑنا
(منہ پر) ہوائیاں اڑنا، (چہرہ) فق ہو جانا، افسردہ یا یژمردہ ہونا۔ (شرم و حیا، خوف یا مایوسی، رنج، تکلیف یا غیرت سے)۔"تم روز بروز کمزور ہوتے چلے جا رہے ہو اور تمہارے چہرے کا رنگ اڑتا جا رہا ہے۔"
( ١٩٤٠ء، الف لیلہ ولیلہ، ٣:١ )
رنگ کا ہلکا ہونا، پھیکا پڑ جانا، رنگ ماند پڑنا۔ رنگ ہے اس کا کبھی کھلتا کبھی اڑتا ہوا دل کسی نادیدہ صحرا کی طرف مڑتا ہوا
( ١٩٢٧ء، فکرو نشاط، ١٧ )
رسم و رواج ختم ہونا، عروج ختم ہونا۔"لکھنءو ایک مِٹی ہوئی تہذیب کی عبرتناک تصویر ہے جسکا رنگ ابھی بالکل نہیں اڑا گیا ہے۔"
( ١٩٠٤ء، مضامین جبست، ٤١ )
رنگ پانی ایک دوسرے پر ڈالا جانا، عبیر اور گلال کے سفوف اڑنا اور بکھرنا۔"بسنت رت کا سما ہے جس میں ہولی کے رنگ اُڑتے ہیں۔"
١٠ - رنگ بگڑنا
حسن میں کمی آنا، حالت متغیّر ہونا، تبدیلی آنا، خرابی پیدا ہونا، بدمزہ ہو جانا۔"حضرت علی نے رنگ بگڑتا دیکھا تو ان کو اندیشہ ہوا کہ کہیں اسی وقت خون ریزی نہ ہونے لگے۔"
( ١٩١٦ء، محرم نامہ، ٦١ )
١١ - رنگ جمنا
رنگت کا کسی چیز پر چڑھنا، رنگ قائم ہونا۔ سبز باے آپ مرے اشکِ رواں کو نہ دکھائیں موج پر رنگ جمے گا نہ کبھی کائی کا
( ١٩٢١ء، کلیات اکبر، ٥:٢ )
رونق پکڑنا، مقبولیت پانا، حیثیت میں بڑھنا، نظروں میں بھلا معلوم ہونا، پراثر ہونا، باوقعت ہونا۔ جما ہے گلشن ایجاد میں کیا رنگ ماتم کا لہو میں تر ہر اک گل کی قبا معلوم ہوتی ہے
( ١٩٢٧ء، معراج سخن، ٨٦ )
١٢ - رنگ اپنانا
انداز اختیار کرنا۔"انہوں نے داغ کے رنگ کو اپنایا انہی کے انداز کو اجاگر کیا۔"
( ١٩٨٨ء، جنگ، کراچی، ١١ مارچ، ١٢ )
١٣ - رنگ اترنا
چمک دمک یا آب و تاب میں کمی ہونا، ناکامی، شرمندگی، اداسی یا خوف سے۔ مد و مہعر کو تم سے تشبیہہ دوں اگر رنگ تھوڑا اُترنا بھی ہو
( ١٩٢٢ء، کلام بے نظیر، ١٤٢ )
١٤ - رنگ اٹھانا
رنگت کو جذب کر لینا، رنگ جانا۔ خونباری فراق سے گل پوش ہوگئے کپڑوں نے رنگ خون جگر کا اڑا لیا
( ١٨٥٤ء، غنچہ آرزو، ٢٩ )