آب

( آب )
{ آب }
( فارسی )

تفصیلات


لفظ آب (پانی) فارسی اور سنسکرت دونوں زبانوں میں 'آب' ہی مستعمل ہے۔ جبکہ اردو میں یہ لفظ فارسی سے آیا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٠٣ء میں 'نوسرہار' میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث )
١ - آکسیجن اور ہائیڈروجن سے سیال مرکب، بے مزہ اور بے رنگ، پانی۔
 بفیض آب نوید گل و گلاب آئی زمین خاک تھی پانی سے آب و تاب آئی    ( ١٩٧٠ء، مراثی نسیم، ٢، ٣٦ )
٢ - [ عناصر ] اربعہ عناصر میں سے ایک عنصر
"اپنے منصب کا فرمان خاص لے کر اُسی کاشانہ آب و خاک میں واپس آ جاتے ہیں۔"    ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبی، ٣، ٣٥٦ )
٣ - پسینہ (اکثر ترکیب میں)، جیسے : آب شرم، آب خجلت۔
 کرے نہ خانہ خرابی تری ندامت جور کہ آب شرم میں ہے جوش چشم تر کا سا      ( ١٨٥١ء، مومن (ک)، ٨ )
٤ - آنسو، آنسو کا قطرہ یا قطرے (اکثر ترکیب میں)۔
"چشم پرآب۔"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ٣٨:١ )
٥ - لعاب، تھوک، رال (عموماً اضافت کی صورت میں)، جیسے : آبِ دہن۔
 آپ کے آب دہن کی ایک یہ روداد ہے واقعی اکسیر تھی آنکھوں سے اس پر صاد ہے      ( ١٩١٩ء، جسمانی معجزے، آغا شاعر، ٧ )
٦ - (اوس کا) قطرہ یا قطرے۔
 چمن تر نہ شبنم کے ہے آب سوں کہ موں دھوئے ہیں پھول گلاب سوں      ( ١٦٠٩ء، قطب مشتری، ٦٠ )
٧ - پھلوں کا قدرتی عرق، کسی شے سے کشید کیا ہوا عرق۔
"سر کے بال گر جاتے ہیں ان کو آب برگ چقندر سے دھونے کی ضرورت ہے۔"      ( ١٩٢٦ء، خزائن الادویہ، ٣، ٣٥٩ )
٨ - شراب
 آب حیات بن گئی ناسخ شراب صاف جو اس نے جام آب سے اپنے لگائے ہونٹھ      ( ١٨٣١ء، دیوان ناسخ، ٢، ١٢٧ )
٩ - رقیقِ مادہ جو پھپھولے یا چھالے سے پھوٹ کر بہے۔
 آبلوں سے پائے مجنوں میں جو ٹپکا آب گرم جل گیا کوئی کوئی خار مغیلاں گل گیا      ( ١٨٤٥ء، کلیاتِ ظفر، ١، ٥٧ )
١٠ - [ دھاتی ]  کیمیائی سیال میں حل کی ہوئی دھات، جیسے : آب زر۔
 لکھتا جو نامہ شوق اس سیمبر کو آتش تحریر اس کو خامہ بے آب زر نہ کرتا      ( ١٨٤٦ء، آتش (ک)، ٢٨ )
١١ - [ طب ]  پارہ۔ (خزائن الادویہ، 1:7)
١٢ - [ تصوف ]  وہ فیض جو ان لوگوں کے لیے ہے، جنھوں نے اپنی ہستی کو فانی کر دیا ہے۔ (مصباح التعرف لارباب الصوف، 22)
١٣ - تلوار چھری وغیرہ کی کاٹ، دھار، تیزی۔
 تجھ میں وہ آب ہے شیروں کا جگر پانی ہے دشمنوں کے لیے جنبش تری طوفانی ہے      ( ١٩٢٩ء، مطلع انوار، ٥١ )
١٤ - عزت، آبرو، وقار۔
 میں تابع توہیں سب کا نواب ہے ترے ہاتھ سب عزت اور آب ہے      ( ١٧٩٤ء، جنگ نامہ دو جوڑا، معظم عباسی، ١١ )
١٥ - صفائے باطن، خلوص۔
 ہے دین ترا اب بھی وہی چشمہ صافی دین داروں میں پر آب ہے باقی نہ صفا ہے      ( ١٨٩٢ء، دیوانِ حالی، ١٢٦ )
١٦ - [ وقت ]  گیارہویں رومی مہینے کا نام جس میں آفتاب برج اسد میں ہوتا ہے اور جو خزاں کے خاتمے کا وقت ہے۔
"اس کا طلوع چودھویں آب کی شب کو اور بارھویں شباط کی شب کو سقوط ہے۔"      ( ١٨٧٧ء، عجائب المخلوقات اردو، ٧٤ )
١٧ - تابندگی، درخشندگی، چمک دمک، براقی، جلا۔
"جس موتی میں آب نہیں وہ موتی نہیں بلکہ کنکر ہے۔"      ( ١٩٠٧ء، ماہنامہ، مخزن، لاہور، جنوری، ٣١ )
١٨ - تروتازگی، رونق، روپ۔
 بفیض آب نوید گل و گلاب آئی زمین خاک تھی پانی سے اس میں آب آئی      ( ١٩٧٠ء، مراثی نسیم، ٢، ٣٦ )
١ - آب بگڑنا
چمک دمک ماند پڑ جانا، رونق باقی نہ رہنا۔"بار بار چھونے سے لچکے کی آب بگڑتی ہے۔"      ( ١٨٩١ء، امیراللغات، ١٥:١ )
دھار کند ہو جانا، باڑھ گر جانا۔"استرہ نہ چھوو آب بگڑ جائے گی۔"      ( ١٨٩١ء، امیراللغات، ١٥:١ )
٢ - آب دینا
(دھار والی چیز کو) تیز کرنا، سان پر چڑھانا، دھار لگانا (عموماً دھار والے آلے کے ساتھ)۔ دیکھ ظالم شوق قتل عاشق دلگیر کو آب دی ہے تیغ کو اور پر دیے ہیں تیر کو      ( ١٩١٧ء، رشید، گلستان رشید، ٦٧ )
تر و تازہ اور بارونق بنانا۔"جوانی نے . حسین چہرے کے آگ لگانے والے رنگ کو آب دیدی۔"      ( ١٩٣٦ء، ریاض خیر آبادی، نثرریاض، ١٣٩ )
چمکانا، جلا دینا۔"اوّل ان کو سختاتے اور پھر حسب منشا آب دیتے ہیں۔"      ( ١٩٤٨ء، اشیائے تعمیر، ١٢٩ )
٣ - آب رکھنا
باڑھ دار ہونا۔ صفت ظلم میں یکساں ہے ستمگر کم و بیش آب رکھتی ہے بسان دم شمشیر چھری      ( ١٨٦٧ء، رشک، دیوان (قلمی نسخہ)، ١٩٣ )
صاف اور چمکیلا ہونا۔ رکھتے ہیں آب آپسی موتی سے دانت تیرے مٹی میں مل گیا ہے جن کی چمک سے ہیرا      ( ١٨٩١ء، غافل (امیراللغات، ١٩:١) )
٤ - آب رواں میں گاڑھے کا پیوند
انمل بے جوڑ۔"دیباچۂ مکاتیب میں میرا سرسری ریمارک آب رواں میں گاڑھے کا پیوند ہو گا۔"      ( ١٩١٧ء، مکاتیب مہدی، ١٦ )
٥ - آب کرنا
"رنج خوف رحم وغیرہ کا اتنا متاثر کرنا کہ پگھل کر پانی پانی ہو جائے۔" بچے نے وہ سختیاں اٹھائی ہیں نسیم پتھر کا جگر جو آب کر دیتی ہیں      ( ١٩٧٠ء، مراثی نسیم، ٣ (قلمی نسخہ)، ٣٠٧ )
٦ - آب کوثر سے زبان دھونا
(کسی مقدس یا محترم ذکر سے پہلے) زبان کو ہر قسم کی کدورت سے پاک و صاف کرنا۔ آب کوثر سے ذرا اپنی زبان دھو ڈالیے شاعرو کس منہ سے کرتے ہو بیان کوے دوست      ( ١٨٧٣ء، کلیات قدر، ١٥٧ )
٧ - آب کوثر سے زبان دُھلی ہونا
نہایت فصیح و بلیغ ہونا۔ (ماخوذ : جامع اللغات، ٦:١)
٨ - آب گرنا
چمک اور صفائی کا مٹ جانا۔ سنو جو کان سے افتادگان خاک کا حال برنگ شبنم گل موتیوں کی آب گرے      ( ١٨٤٧ء، کلیات منیر، ٢٢٤:١ )
٩ - آب لے جانا
(چمک دمک میں) ماند کر دینا۔ کہوں کیا موتیوں کی کان میں تاب ثریا کی لڑی سے لے گئی آب      ( ١٨٢٨ء، مثنوی نل دمن، ٦ )
١٠ - آب لینا
طہارت کرنا، پاک ہونا۔ چغد بھی تھا وہ ڈھاری کا پیشاب ہگ کے کھڈی پہ لیتا تھا جونہ آب      ( ١٨٦١ء، کلیات اختر، واجد علی شاہ، ٩٧٢ )
١١ - آب مٹانا
(چمک دمک میں) ماند کر دینا۔ مٹائی موتیوں کی آب اس کے دانتوں نے اڑا دیا لب رنگیں نے رنگ لالوں کا      ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ١٤ )
١٢ - آب مٹنا
آب مٹانا کا فعل لازم۔ (چمک دمک میں) ماند پڑنا۔"جھائیں پڑنے سے آئینے کی آب مٹ گئی۔"      ( ١٨٩١ء، امیراللغات، ٢٠:١ )
١٣ - آب و خور اٹھنا
کسی جگہ کی روزی مقدر میں نہ رہنا، چلنے کا وقت آ پہنچنا۔ جب اٹھا اس جگہ سے آب و خور اس سے کہنے لگا یہ اک ٹھاکر      ( ١٨٧٣ء، کلیات منیر، ٥٧٤:٣ )
روزگار سے برطرف ہونا، موت آنا۔ (نوراللغات، ٤٥:١)
١٤ - آب و دانہ اٹھنا
کسی مقام کی روزی یا وسیلہ روزی کا منقطع ہونا، روزگار چھوٹنا، سفر پیش آنا، موت آنا۔ شکر کر قید سے صیاد کی ہوتی ہے رہا آب و دانہ ترا اے بلبل شیدا اٹھا      ( ١٨٤٣ء، دیوان رند، ٢٥٢:٢ )
١٥ - آب و دانہ اٹھانا
بود و باش کی جگہ یا روزگار چھڑا دینا۔ خداوندا اٹھا لے آب و دانہ قفس سے پھر سوے گلشن سفر ہو      ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ١٧٤ )
کھانا پینا بند کر دینا۔ پیاسے جمال کے ہیں تو بھوکے وصال کے خالق نے آب و دانہ ہمارا اٹھا لیا      ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٣٧ )
١٦ - آب و دانہ بند کرنا
کھانا پینا یا دانہ پانی نہ دینا۔ کیا بند ان کے اوپر آب و دانہ وصایائے نبی سمجھے فسانہ      ( ١٨٣٨ء، ناسخ، شہادت نامہ، ٤٤ )
١٧ - آب و دانہ بند ہونا
کھانا پینا یا دانہ پانی نہ ملنا۔"حضور کیوں خاموش بیٹھے ہیں دشمنوں پر آب و دانہ بند تھا۔"      ( ١٨٩١ء، طلسم ہوشربا، ٣٤٢:٥ )
١٨ - آب و دانہ حرام کر دینا
اتنا تنگ اور پریشان کرنا کہ کھانا پینا ناگوار ہو۔ (ماخوذ : امیراللغات، ٢:١)
١٩ - آب و رنگ چڑھانا
کسی بات کو حسن و خوبی کے ساتھ دلکش اور حسین بنا کر بیان کرنا۔"شاعری کے لیے کچھ نہ کچھ آب و رنگ چڑھانا ضرور تھا۔"      ( ١٩٠٧ء، شعر العجم، ٣٣٨:١ )
٢٠ - آب و نمک ملانا
کسی بات کو بڑھا کر بیان کرنا، حقیقت میں جھوٹ کی آمیزش کرنا، مبالغہ کرنا۔"مثل خالد کے اس مضمون میں اور بھی آب و نمک ملاءوں۔"      ( ١٨٥٥ء، غزوات حیدری، ٥٠٢ )
٢١ - آب ہونا
حرارت سے پگھل جانا، پانی ہو جانا۔ بیان نارکروں تو دِل آب ہو جائے زبان طائر مضموں کباب ہو جائے      ( ١٩١٢ء، شمیم، ریاض شمیم، ١٤:٥ )
کسی جذبے یا کیفیّت سے نرم پڑ جانا یا پگھل جانا، پسیجنا (شرم، ضبط غم رحم وغیرہ کی حالت میں)۔ کہتا ہوں جو حال دِل تو ہوتا ہوں حُجل کرتا ہوں جو ضبط آب ہوتا ہے دل      ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٢٨١ )
ضائع ہونا، برباد ہو جانا۔ میں دم میں خاک ہوا وہ غریب آب ہوا سب اک قماش کے تھے میں ہوا حباب ہوا      ( ١٩٢٧ء، شاد، مے خانۂ الہام، ٥٨ )
آسان ہونا، سہل ہونا۔ جو پیاسوں کی تاسی میں بڑھو تم تان کر سینے تو جو منزل کڑی آتی رہے وہ آب ہو جائے      ( ١٩٤٢ء، 'اسد' محرم نمبر،لکھنو، ١٣ )
چمک دمک یا باڑھ ہونا۔ مرتے ہیں جو یائے عزت آبروے قتل میں خنجر قاتل میں شاید آبرو کی آب ہے      ( ١٨٦٧ء، رشک، دیوان (قلمی نسخہ)، ٣٠٧ )
٢٢ - آب اترنا
چمک دمک جاتی رہنا۔ کچھ مرے آنسوءوں کی قدر نہ کی اتری نہ ان موتیوں کی آب عبث      ( ١٨٦٧ء، رشک، دیوان (قلمی نسخہ)، ٥٧ )
عزت خاک میں ملنا۔ (پلیٹس)
٢٣ - آب اُڑنا
چمک دمک جاتی رہنا۔ (نوراللغات، ٣٩:١)
١ - آب چو (--کہ) از سرگزشت چہ یک نیزہ چہ یک دست
فارسی کہاوت، اردو میں مستعمل۔ (لفظاً) جب پانی سر سے اونچا ہو گیا تو ایک بالشت یا نیزہ بھر سب برابر ہے، (مراداً) جب مصیبت یا بدنامی حد سے بڑھ گئی تو اس کا اب اتنا ہی رہنا یا اس سے بھی بڑھ جانا دونوں برابر ہیں۔ (امیراللغات، ١٦:١)"نمک کیا چیز ہے اور نمک حرام کیسا ہوتا ہے بقولیکہ آبے کہ از سرگزشت چہ یک نیزہ چہ یک دست۔"      ( ١٨٩١ء، بوستان خیال، ٣٥:٩ )
٢ - آب ندیدہ موزہ (اَزْپا) کشیدہ
کسی آفت یا مشکل کے پیش آنے سے قبل اس کے اندیشے میں مبتلا ہونے کے موقع پر مستعمل۔"سرے سے یہ سلوک ہی ان وقتوں کی پیداوار نہیں آب ندیدہ موزہ از پا کشیدہ متقدمین قبل الوقت ان کا دفعیہ کیسے کرتے۔"      ( ١٩٠٣ء، لیکچروں کا مجموعہ، نذیر، ٤٥٧:٢ )
٣ - آب آب کر مر گئے سرھانے دھرا رہا پانی
ایسے موقع پر مستعمل جہاں کوئی شخص اپنے خصوصیات چھوڑ کر دوسروں کی تقلید کرنے سے نقصان اٹھائے۔ کابل گئے بانیا اور سیکھی مغل کی بانی آب آب کر مر گئے سرھانے دھرا رہا پانی      ( ١٩٣٣ء، گنجینہ اقوال و امثال، دیباچہ، ٣ )
٤ - آب آمَد تیممّ برخاست
(لفظاً) پانی مل گیا تو تیممّ درست نہیں، (مراداً) اصل کے ہوتے فرع کی ضرورت نہیں۔"بیوی کے مقابلے میں ہم غریب دوستوں کی کیا ہستی ہے، آب آمد تیممّ برخاست۔"      ( ١٩٤٧ء، فرحت مضامین، ٥١:٧ )