١ - دف اور دوسرے سازوں کی آواز یا جھنکار؛ (مجازاً) شان و شوکت، آن بان، کروفر۔
"سرخ عبا شانوں پر ڈالے، بارہ ترک سپاہیوں کے جلو میں براق جیسے گھوڑے پر طنطنے کے ساتھ بیٹھا ہوا کوئی حسین شہزادہ آئے گا۔"
( ١٩٧٩ء، کیسے کیسے لوگ، ١٥٣ )
٢ - رعب داب، دبدبہ۔
"سائل صاحب میں نوابی شان اور طنطنہ تھا۔"
( ١٩٨١ء، آسماں کیسے کیسے، ١٢٦ )
٣ - شور، شہرہ۔
"ایک طرف اس زمانے کے علی گڑھ کا وہ طنطنہ اور دوسری طرف یہ کچی پارک۔"
( ١٩٥٦ء، آشفتہ بیانی میری، ٦١ )
٤ - غرور، گھمنڈ۔
"اتنی تکلیف اٹھانے کے بعد بھی مزاج کا طنطنہ نہیں گیا۔"
( ١٩٢١ء، اولاد کی شادی، ١٠٧ )
٥ - غصہ، بدمزاجی۔
"غزالہ بیگم بڑی طنطنے والی تھیں، بات کاٹو تو چڑ جاتی تھیں۔"
( ١٩٨١ء، چلتا مسافر، ١٥١ )
٦ - نقارے کے بائیں طبل کی آواز، تنتنا، نقارے اور نوبت وغیرہ کی زیر کی آواز، دائیں طبل یا بم کی آواز کو دمدمہ یا دبدبہ کہتے ہیں۔ (ماخوذ؛ اصطلاحات پیشہ وراں، فرہنگ آصفیہ)۔