بھوت

( بُھوت )
{ بُھوت }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے اردو میں داخل ہوا اور ١٦٠٩ء میں "قصہ تمیم انصاری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : بُھتْنِی [بُھت + نی]
جمع ندائی   : بُھوتو [بُھو + تو (و مجہول)]
جمع غیر ندائی   : بُھوتوں [بُھو + توں (و مجہول)]
١ - خبیث روح، دیو، جن، غول، چھلاوہ۔
 باہم شب وصال غلط فہمیاں ہوئیں مجھ کو پری کا شبہ ہوا ان کو بھوت کا۔      ( ١٩٢١ء، کلیات، اکبر، ٣٤٧:١ )
٢ - مخلوقات، کوئی زندہ چیز۔
"جتنے بھوت ہیں سو اس کا روپ ہیں"      ( ١٨٩٠ء، ترجمہ جوگ بششٹھ، ٣٦٠:٢ )
٣ - [ فلسفہ ]  عناصر خمسہ (مٹی، پانی، آگ ہوا اور ایتھر) میں سے کوئی ایک عنصر۔
"دیو نہ وشنو ہے نہ کیشو ہے نہ کوئی پنچ بھوتوں سے بنا ہوا شریر دھاری ہے"۔      ( ١٨٩٠ء، ترجمہ جوگ بششٹھ، ٢٤٣ )
٤ - [ قواعد ]  زمانہ ماضی، گزرا ہوا زمانہ۔
"پرماتما، بھوت، بھوشیٹ اور واتان تینوں کا حال جاننے والا ہے"۔      ( ١٩٣٨ء، بھگوت گیتا اردو، ٢٠٤ )
٥ - وجود، وجود واقعی، ہونا، پیدا، سچ مچ ہونا، صدق، سچ، درست، مناسب۔(پلیٹس، جامع اللغات، 565:1)
٦ - [ ہندو مت ]  مرگھٹ کا بھوتنا یا بیتال جو درخت پر بسیرا کرتا یا الٹا لٹکتا رہتا ہے جو اپنی شرانگیزی سے انسان کو ہلاک کر دیتا ہے۔جامع اللغات، 565:1
٧ - [ قانون ]  مقدمے کی حقیقی صورتحال، امر واقعی۔(پلیٹس، جامع اللغات، 565:1)
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : بُھتْنِی [بُھت + نی]
جمع غیر ندائی   : بُھوتوں [بُھو + توں (و مجہول)]
١ - بد، شریر، سرکش، شیطان، موذی۔
وہ بھبھوت جو وہ موا، نگوڑا، بھوت . دے گیا ہے، ہاتھ مڑوڑوا کے چھِنوا لوں گی"      ( ١٨٠٣ء، رانی کیتکی، ٣٣ )
٢ - بعض اوقات مؤنث بھی استعمال کرتے ہیں۔
"خدا کی شان ہے کہ اولیاؤں کے ہاں تم جیسی بھوت پیدا ہوئیں"۔      ( ١٩١٠ء، لڑکیوں کی انشاء، ٤٤ )