خبیث

( خَبِیث )
{ خَبِیث }
( عربی )

تفصیلات


خبث  خَبِیث

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے اسم فاعل ہے اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ ١٦٦٣ء کو "میراں جی خدا نما، نورنین" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع غیر ندائی   : خَبِیثوں [خَبی + ثوں (و مجہول)]
١ - ناپاک، نجس، پلید، گندا۔
"ان کی ظاہری شکلوں سے دھوکا نہ کھانا یہ اندر سے بڑے بدمعاش، خبیث اور بد ہیں"      ( ١٩٨٢ء، میری داستان حیات، ٧١ )
٢ - حرام، ممنوعہ، ناجائز۔
"پھر سے بت پوجنے لگیں اور تمام خبیث کام پھر کرنے لگیں جو ہم پہلے کرتے تھے"      ( ١٩٦٠ء، رسول عربی (ترجمہ)، ٨٩ )
٣ - بُرا، بُری، بد، خراب۔
"رحمت میرے رب کی خبیث لوگوں کے لیے نہیں ہے"      ( ١٩٨١ء، ملامتوں کے درمیان، ١٤٨ )
٤ - شریرالنفس، بدباطن۔
"عنایت نے اپنا فقرہ مکمل کرکے چھوڑا اگرچہ اس کا باپ 'خبیث کتے چپ کر' کہتا رہا۔"      ( ١٩٨٣ء، ساتواں چراغ، ٨٢ )
٥ - بھوت، پریت، جن۔
"کسی عالم علوی و سفلی کے گھر میں اتنے فرماں بردار موکل یا خبیث نہ ہوں گے"      ( ١٩٢٤ء، اودھ پنچ، لکھنو، ٩، ٣:٤٣ )
٦ - [ طب ]  سرطانی، ناسوری، ناسور دار۔
"کبھی کبھی تالو کی غیر خبیث (بے ضرر) اور خبیث دونوں قسم ی رسولیاں پائی جاتی ہیں"      ( ١٩٣٤ء، احشائیات (ترجمہ)، ٦٢ )
٧ - زہریلا، متحفن، سمی، موذی، مہلک۔
"موسمی بخاروں کے اقسام؛ تعفن دم، ورم بطانۂ قلب خبیث سوء القنیہ کی قسم خبیث"      ( ١٩٣٣ء، بخاروں کا اصول علاج، ٣٩ )