پہاڑ

( پَہاڑ )
{ پَہاڑ }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان میں دو الفاظ کا مجموعہ 'پراگ' اور 'ہار'۔ اردو میں 'پہاڑ' مستعمل ہوا۔ ١٦٥٧ء میں "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - کٹھن، دوبھر، اجیرن، مشکل، دشوار۔
"مجھے تو اس بغیر کل نہ پڑتی تھی، ایک دم پہاڑ تھا"      ( ١٨٠٢ء، باغ و بہار، میرا من، ٥٠ )
٢ - عظیم، بڑے جثے والا، بہت بڑا۔
مژگاں سے میرے پوچھ شب غم کا طول و عرض تھا اک پہاڑ تنکے کی اوجھل تمام رات    ( ١٨٢٦ء، دیوان، معروف، ٤٦ )
٣ - دراز، طویل، لمبا، طولانی
 غرق بحر غم و اندوہ رہا میں دن بھر اور پہاڑ ایسا وہ دن تھا نہ ہوتا تھا تمام    ( ١٨٢٦ء، کلیات، رعب، ٢٦٦ )
٤ - قوی، مضبوط
 اس گفتگو سے آہ مرا دل پہاڑ تھا کہتی تھی گو پدر نہیں بھائی ہے شیر سا      ( ١٨٧٥ء، دفتر ماتم، دبیر، ٥٣:٧ )
٥ - [ مجازا ]  ڈھیر، تودہ کلاں، زیادہ یا بہت بڑی مقدار یا تعداد۔
"حنین کی لڑائی میں جو غنیمت بہت ہاتھ آئی، اس نے تعجب کیا اور آپۖ نے ایک پہاڑ غنیمت کا اسے بخش دیا"۔      ( ١٨٩٠ء، تذکرۃ الکرام، ٥٤ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : پَہاڑوں [پَہا + ڑوں (و مجہول)]
١ - قدرتی طور پر سخت پتھریلی اونچی زمین، کوہ، پربت، کوہسار، جبل۔
"درندوں کے خوف و خطر سے ٹیلوں اور پہاڑوں میں پناہ لیتے"۔      ( ١٨١٠ء، اخوان الصفا، ٥ )
٢ - وہ پہاڑی مقام جہاں موسم گرما میں دوسرے مقامات کی بہ نسبت گرمی کم ہوتی ہے۔ پہاڑوں کے اوپر بسے ہوئے شہر جو موسم گرما میں سرد رہتے ہیں، جیسے مری، چترال، زیارت وغیرہ۔
"ڈاکٹر صاحب نے ایک مہینے بعد عینک تجویز کرنے کے لیے پہاڑ پر بلایا ہے"      ( ١٩٠٧ء، مکتوبات حالی، ٤٠٠:٢ )
٣ - [ کہار ]  ہاتھی۔اصطلاحاتِ پیشہ وراں، منیر، 61