دزدیدہ

( دُزْدِیدَہ )
{ دُز + دی + دَہ }
( فارسی )

تفصیلات


دزدیدن  دُزْدِیدَہ

فارسی مصدر 'دزدیدن' سے صیغہ حالیہ تمام 'دزدیدہ' اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٧٨٤ء سے "دیوان درد" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - چوری کا، چرایا ہوا۔
 کون کہتا کہ آنگن میں نہ اترا سورج کیا یہی ساعت دزدیدہ ترے نام نہیں      ( ١٩٨٢ء، ساز سخن بہانہ، ١٣٢ )
٢ - چھپا ہوا، پوشیدہ، چوری چھپے۔
 دیکھ لیتے ہیں کنکھیوں سے کبھی وہ بزم میں ان کی دزدیدہ عنایت اس قدر ہو بھی تو کیا      ( ١٩٣٢ء، بے نظیر شاہ، کلام بے نظیر، ٣٢ )