زیادہ گوئی

( زِیادَہ گوئی )
{ زِیا + دَہ + گو (و مجہول) + ای }

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ صفت 'زیادہ' کے ساتھ فارسی صفت 'گو' لگا کر ہمزہ زائد لگایا اور 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے مرکب 'زیادہ گوئی' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨١٠ء کو "کلیات میر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - یاوہ گوئی، بکواس، بک بک، فضول باتیں کرنا۔
 اس کی زیادہ گوئی سے دل داغ ہو گیا شکوہ کیا جب اس سے تب ان نے کہا کچھ اور      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ٤٢٥ )
٢ - مبالغہ آرائی، بات کو بڑھا چڑھا کر کہنا۔
"خورشید نے کہا زیادہ گوئی نہ کر کہیں دغا سے کسی کو مارا ہو گا۔"      ( ١٨٨٢ء، طلسم ہوشربا، ٨٠٨:١ )