شاخسانہ

( شاخْسانَہ )
{ شاخ + سا + نَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو زبان میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٧٦ء کو "مثنوی خواب و خیال" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - جھگڑے کی بات یا قصہ، (تلمیح) قدیم ایران میں فقیروں کے ایک گروہ کی طرف، جو بھیڑ کے شانے کی ہڈی سے مکروہ آواز نکالتے اور کچھ نہ ملنے پر اپنے آپ کو لہولہان کر لیتے تھے اس لیے فارسی میں شاخسانہ بمعنی دھمکی مستعمل ہو گیا۔ (ماخوذ: جامع اللغات، نوراللغات، فرہنگ آصفیہ)۔
٢ - جھگڑا، بحث، فتنہ، بات میں بات، بات کا سلسلہ، ایسی گفتگو جس میں فساد پیدا ہو۔
سنسر بورڈ اور انتظامیہ نے یہ فلم پاس نہیں کی، یہ سارا شاخسانہ اسرائیلی اور امریکی لابی کا تھا۔"      ( ١٩٨٧ء، آجاؤ افریقہ، ١٥٢ )
٣ - عیب، برائی، رخنہ۔
"شاعری شاعر کی مریض شخصیت کا ایک شاخسانہ بن کر رہ جاتی ہے۔"      ( ١٩٨٥ء، نقد حرف، ٧٤ )
٤ - ڈھکوسلا، دھوکا، بےسروپا بات، من گھڑت بات، بے بنیاد فسانہ جو زیب داستاں کے لیے ہو۔
"خیر ڈاک کا معاملہ تو یہ ہے کہ انٹرنیشنل فرینڈز شپ کا شاخسانہ ہے۔"      ( ١٩٦٤ء، خشک چشمے کے کنارے، ٥٠ )
٥ - بدگمانی بدظنی۔
"فیض کے مصائب اسی کا شاخسانہ تھے۔"      ( ١٩٨٦ء، فیضان فیض، ٦٨ )
٦ - عجیب و غریب بات، انوکھا کام۔
"تاریخی عمل کا ایک شاخسانہ ہے۔"      ( ١٩٨٣ء، کوریا کہانی، ١١٨ )
٧ - ٹہنی، ڈالی۔
 وہ بلبل ہوں تمہارا گاؤں گی راگ میرا گردار بھی ہو شاخسانہ      ( ١٩٠٥ء، جنگ روس و جاپان، ٥٦ )
٨ - شعبہ، حصہ، سلسلہ۔
"ناسخ کی مضمون آفرینی ہی کا شاخسانہ ان کا تمثیلی انداز بھی ہے علامہ ندوی نے اسے جائز طور پر . لکھا ہے۔"      ( ١٩٨٨ء، دو ادبی سکول، ١١٦ )