دلیل

( دَلِیل )
{ دَلِیل }
( عربی )

تفصیلات


دلل  دَلِیل

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مجرد کے باب سے اسم فاعل ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٥٤ء کو "گنج شریف" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - مقامات کی نشاندہی کرنے والا، رہنما، راستہ دکھانے والا، گائیڈ۔
"مدینے کا رہنے والا اور حاجیوں کا دلیل . ہے"      ( ١٩١١ء، روز نامہ سیاحت، حصّہ سوم، ٣٣٩ )
٢ - [ طب ]  قارورہ، شیشی میں بیمار کا پیشاب۔
"دلیل . اطبا کی اصطلاح میں تارورہ کو بھی کہتے ہیں۔"      ( ١٩٠٧ء، مکاتیب حالی، ٧٦ )
٣ - جس سے کوئی امر ثابت ہو جائے، کسی امر کا ثبوت، برہان، حجت۔
"ان کی کامیابی کی یہ دلیل کیا کم ہے کہ اس وقت کے قریب قریب تمام مشاہیر مثلاً مولانا محمد علی جوہر . نے ان کی قابلیت اور انشا کی داد دی تھی۔"      ( ١٩٨٣ء، نایاب ہیں ہم، ١٠٦ )
٤ - ڈائریکٹر۔ (انگلش اینڈ ہندوستانی ٹیکنیکل ٹرمز، 66)
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : دَلِیلیں [دَلی + لیں (ی مجہول)]
جمع استثنائی   : دَلائِل [دَلا + اِل]
جمع غیر ندائی   : دَلِیلوں [دَلی + لوں (و مجہول)]
١ - [ منطق ] وہ شے جس کا علم دوسری شے کے علم کا سبب یا علامت ہو۔
"منطق کی اصطلاح میں یا علم مناظرہ میں دلیل وہ ہے جس کے جاننے سے کسی اور چیز کا جاننا لازم آئے۔"    ( ١٩٠٧ء، مکاتیب حالی، ٧٦ )
٢ - حجت، ثبوت، وجہ۔
 دلیل کیا ہے کسی ماسوا کے ہونے کی گواہ ساری خدائی خدا کے ہونے کی    ( ١٩٨٤ء، الحمد، ٤٤ )
٣ - رہنمائی۔
"یہ قصہ میں نے صرف مدد اور دلیل کے طور پر بیان کیا ہے۔"      ( ١٩٤٧ء، جراحیات زہراوی، ١٦٢ )