اسم کیفیت ( مذکر، مؤنث - واحد )
١ - بحث، جھگڑا، ردو کد۔
نہ قائل ہوئے تھے نہ ہونگے ہیں ہم بڑھاتا ہے ناحق کو تکرار واعظ
( ١٩٥٠ء، کلیات حسرت، ٧٢ )
٢ - قانونی نقطۂ نظر سے دلائل کے ساتھ ثبوت یا بحث۔
"صاحبانِ پارلیمنٹ مقدمہ کو فیصل کرتے ہیں اور کیسی کیسی تکراریں درمیان میں لاتے ہیں۔"
( ١٨٨٠ء، ماسٹر رام چندر، ١١٦ )
٣ - اصرار، تاکید، بار بار دہرانا، بار بار کرنا، اعادہ کرنا۔
"ذاتی مشاہدے کو وہ اپنی داستان میں اتنے تکرار سے بیان کرتا ہے کہ. اس بحث سے اکتا جاویں۔"
( ١٩٠٠ء، بسنت سالہ عہدِ حکومت، ٨ )
٤ - بن کر بگڑنا، بازگشت۔
"جب تم کو معلوم ہوا کہ کائنات کی تکرار واجب نے پس مرکبات، عنصریہ موالید ثلثہ باقی نہیں رہتے۔"
( ١٩٢٥ء، حکمۃ الاشراق، ٤٣٥ )
٥ - حجت، تو تو میں میں۔
چکانا ہے کیسا یہ تکرار کیسی یونہی چھین لو دل کی قیمت کہاں کی
( ١٨٧٢ء، عروس الاذکار، ١٠١ )
٦ - سبق وغیرہ کو دوبارہ پڑھنا، اعادہ، دہراؤ۔
"اس زمانہ تک خاص نصاب اور کتابوں کے سبق کا طریقہ نہ تھا اور نہ طلبہ سبق کو پڑھنے کے بعد اس طرح دھراتے تھے خیام، جسکے لیے ہمارے عربی مدرسوں میں "تکرار" کی اصطلاح جاری ہے۔"
( ١٩٣٢ء، خیام، ٣٦ )
٧ - ایک ہی نمونے یا نقوش کو متعدد بار دہرانا جو کوئی جدت نہ پیدا کر سکے۔
"صحن کے دوسری طرف حاشیے اور ستونوں کے نقش بنے ہوئے تھے انہیں کی نقل و تکرار سے پوری کمان کو. معمور کر دیا۔"
( ١٩٣٢ء، اسلامی فنِ تعمیر، ٢٦ )
٨ - ماضی کے تعلق سے فن کی تجدید۔
"اِن نئی روایات کے بڑے بڑے اصول متناسب تکرار اور موزنیت ہیں۔"
( ١٩٣٢ء، مسلمانوں کے فنون، ٣٢ )
٩ - ٹھگوں کے بارے گانْو والوں کی تفتیش، تحقیق، ٹوہ، (اصطلاحاتِ پیشہ وراں، 18:7)
١٠ - [ بدیع ] کسی قافیے یا مضمون یا مصرع کو دوبارہ لانا۔
"پس اگر تاکید منظور نہ ہو تو تکرار عیب ہے۔"
( ١٨٨١ء، بحر الفصاحت، ١٧٢ )
١١ - ضد، ہٹ۔
کیا مزا تکرار میں ایک بار جب فرما چکے منہ کو کیوں میٹھا کرو پھر جب مٹھائی کھا چکے
( ١٩٣٠ء، اردو گلستان، ١٣٥ )
١٢ - التجا، درخواست۔
اے کوزہو گرد یہی ہے تم سے تکرار برباد کرو نہ خاک میری زنہار
( ١٨٤٤ء، نذر خیام، ٧١ )