لچا

( لُچّا )
{ لُچ + چا }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'لچ' کے ساتھ 'ا' بطور لاحقہ تنکیر یا نسبت لگانے سے 'لچا' بنا۔ اردو زبان میں بطور صفت اور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٦٥ء کو "دکھنی انور سہیلی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - [ عورات ]  حقّہ، تمباکو پینے کا آلہ۔ (فرہنگ آصفیہ)
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : لُچّی [لُچ + چی]
واحد غیر ندائی   : لُچّے [لُچ + چے]
جمع   : لُچّے [لُچ + چے]
جمع ندائی   : لُچّو [لُچ + چو (و مجہول)]
جمع غیر ندائی   : لُچّوں [لُچ + چوں (و مجہول)]
١ - بدچلن، آوارہ، لفنگا، شریر، فسادی، بدمعاش نیز بے شرم، بے حیا۔
"کرنل بڑا بار سوخ آدمی ہے، بڑا لچا ہے۔"    ( ١٩٦٢ء، معصومہ، ٢٣٥ )
٢ - اچکا، ٹھگ، جواری، قمار باز۔
"ہم لچّوں اور ہیجڑوں کو اپنا حاکم منتخب کر لیتے ہیں۔"    ( ١٩٧٣ء، نئی تنقید، ٣٧٨ )
٣ - عیب دار، پُرعیب، بُرا، خراب۔
"شاہ بڑے جیسے لچے مقام پر کوئی آنکھ نہیں ملا سکتا ہے۔"      ( ١٩٥٨ء، شمع خرابات، ٢٠٩ )
٤ - ننگا، برہنہ، عریاں؛ (مجازاً) مفلس، بے سرو سامان۔
"پادشاہ. تھوڑے دناں میں پادشاہی اڑھ جا کر لچا ہوگیا۔"      ( ١٧٦٥ء، دکھنی انور سہیلی، ٢٤٩۔ )