لتاڑ

( لَتاڑ )
{ لَتاڑ }
( ہندی )

تفصیلات


ہندی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو زبان میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨١٤ء کو "لوزتن" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : لَتاڑیں [کتا + ریں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : لَتاڑوں [کتا + ڑوں (و مجہول)]
١ - لاتیں ماری جانے کا کام؛ مراد: لعنت ملامت، سرزنش۔
 میں سوچتا ہوں کہاں نعرہ سیاسی میں جو تازیانہ ہمّت تری لتاڑ میں ہے      ( ١٩٥٩ء، گلِ نغمہ، فراق، ٢٦٩ )
٢ - تکلیف، دکھ، مصیبت۔
"رہا سہا دم موجودہ تہذیب کی لتاڑ سے نکل جائے گا۔"      ( ١٩٣٦ء، مضامین فلک پیما، ٢٠٧ )
٣ - فضیحتی، رُسوائی۔
"مقصود ان معلومات پر عمل کرنا نہیں ہوتا بلکہ دوسروں پر اپنی قابلیت کا سکہ جمانا ہوتا ہے یا پھر دوسروں کی لتاڑ کرنا۔"      ( ١٩٥٤ء، اکبرنامہ، عبدالماجد، ١٢٦ )
٤ - کام کی مارا مار، لے دے، زیادتی، بھاگ دوڑ، دوڑ و دھوپ۔
"ہر وقت کی فضیحتی، اور رات دن کی لتاڑ بھلی چنگی ماما کا جی اچاٹ کر دیتی ہے۔"      ( ١٩١٠ء، لڑکیوں کی انشاء، ٤٦ )
٥ - رو ندن، پامالی۔
 کریں رقم ہم اگر حال پائمالئی دل رہے ہمیشہ قلم کی لتاڑ میں کاغذ      ( ١٨٤٥ء، کلیات ظفر، ٩٠:١ )
٦ - کٹار، چھوٹی شمشیر۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 203:8)