لحن

( لَحْن )
{ لَحْن (فتحہ ل مجہول) }
( عربی )

تفصیلات


لحن  لَحْن

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم مصدر ہے۔ اردو زبان میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٧٢ء کو "دیوانِ فغاں" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
جمع   : لَحان [لَحان (فتحہ ل مجہول)]
١ - سریلی آواز، خوش نوائی، خوش گلوئی، خوش آوازی۔
"سوز خواں تخت سے اتر چکے تھے، ان کے لحن کی گونج ابھی لہو میں گردش کر رہی تھی۔"      ( ١٩٨٣ء، قیدی سانس لیتا ہے، ١٩٥ )
٢ - [ موسیقی ]  نغمہ آہنگ، راگ، سُر۔
"شاعری کا بنیادی لحن عروض اور گرامر کی کتابوں سے نہیں شاعر کی زندگی سے پھوٹا کرتا ہے۔"      ( ١٩٨٨ء، فیض، شاعری اور سیاست، ٩٨ )
٣ - اعراب یا بنیادی اصول کی غلطی۔
"بولا عکرمہ، کیا مصحف لکھے گئے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کو بتلائے، عثمان اُس میں دیکھے، اس کے چند حرفوں میں لحن ہے یعنی اعراب کی خطا ہے۔"      ( ١٨٦٠ء، فیض الکریم، ٨٠٨ )
٤ - ایک قسم کا معیوب قافیہ (فرہنگ آصفیہ، جامع اللغات)
٥ - [ تجوید ]  قرآن پاک کو تجوید کے خلاف پڑھنا۔ (علم التجوید، 55)