لہو

( لَہْو )
{ لَہْوْ (فتحہ ل مجہول) }
( عربی )

تفصیلات


لوہ  لَہْو

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو زبان میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٩٠٤ء کو "رسالۂ سماع و مذامیر" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - کھیل، کھیل کود، بازی، شغل، غافل، کرنے کی چیز۔
"جنگ کرنے کے وقت نقارہ بجانا اس غرض سے غازی خبردار ہو جائیں . ایسا کرنا لہو میں داخل نہیں ہے۔"      ( ١٩٠٤ء، رسالۂ سماع و مذامیر، ١١٥ )
٢ - دف، سرود، وغیرہ۔
"نبی خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا (عائشہ) کیا تمہارے پاس لہو (دف یا سرود) نہیں ہے کیونکہ انصار کو لہو بھلا معلوم ہوتا ہے۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ٢٦٥:٣ )
٣ - [ تصوف ]  ذات کا اعتبار بحسب غیبت و فقدان۔ (مصباح التعرف)