خاطر نشیں

( خاطِر نَشِیں )
{ خا + طِر + نَشِیں }

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'خاطر' کے ساتھ فارسی مصدر 'نشستن' سے مشتق صیغہ امر 'نشیں' بطور لاحقہ فاعلی ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ ١٨٤٠ء میں "چمنستان سخن"میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - دل نشیں، ذہن نشیں، وہ بات جو دلم ںی بیٹھ جائے۔
 ہے لب بحر رواں آگ گلشن خاطر نشیں سبزہ تر سے زمرّد پوش ہے جس کی زمیں      ( ١٩١٠ء، کلام محروم، ٤٠:١ )