خفی

( خَفی )
{ خَفی }
( عربی )

تفصیلات


خفی  خَفی

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم صفت ہے اردو میں اصل معنی اور حالت میں بطور صفت مستعمل ہے ١٧٠٠ میں "من لگن" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - پوشیدہ، پنہاں، چھپا ہوا۔
"ماڑی گمبند. کا خفی صحن تقریباً پانچ سو مربع میل کا رقبہ گھیرے ہوئے ہے۔"      ( ١٩٧٧ء، معاشی جغرافیہ پاکستان ١٩٥ )
٢ - در پردہ۔
 سناتی کبھی اپنی آواز کو جاتی خفی ناز و انداز کو      ( ١٨٠٢ء، بہار دانش، لچش، ١٠ )
٣ - باریک، مہین قلم کحی نوک جس سے حرف کے باریک حصے لکھے جاتے ہیں، نیز اس قلم کو کہتے ہیں جس کی نوک باریک ہو۔
"بہ نسبت نوک یمین کے جس کو جلی اور انسی کہتے ہیں نوجک بسار جس کو خفی اور وحشی کہتے ہیں اور اس سے باریک حصے حرف کے لکھے جاتے ہیں مضبوط ہو۔"      ( ١٩٠٣ء، نظم پروین، ١٦ )
٤ - بلند کی ضد، آہستہ (آواز)۔
"بتاؤ کہ میں ندائے خفی سے پکاروں یا صدائے جہر لگاؤں۔"      ( ١٩١١ء، سوانح عمری خواجہ حسن نظامی، ٩٥ )
٥ - باریک نوک کے قلم سے لکھا ہوا (خط یا عبارت)۔
 نعرے فلک شگاف ہیں دعوے بلند بانگ عنواں جلی جلی ہیں عبارت خفی خفی      ( ١٩٨١ء، مضراب ور باب، ٢٥١ )
٦ - صفت باری تعالٰی۔
 قدیر و قوی و دود و ولی خفی و خفی لاتراہ العیون      ( ١٩٢٩ء، مزمور میر مغنی، ٥٧ )
٧ - [ تصوف ]  ایک لطیفہ کا نام جو انسان کے بدن میں روح کے بعد ودیت رکھا گیا ہے اور اسی کی وجہ سے فیض الٰہی کا اضافہ روح پر ہوتا ہے۔
"انسان کے بدن میں چھے لطیفے عالم غیب کے و دیعت رکھے گیے ہیں ان میں سے ہر ایک کا معاملہ جداگانہ ہے. ان لطیفوں کے نام حسب ذیل ہیں، نفس، قلب، روح، بسر، خفی، اخفی۔"      ( ١٩٢١ء، مناقب الحسن رسول نما، ٣٢٤ )